اسلامی ممالک- قطر، سعودی عرب اور ترکیہ نے طالبان کی جانب سے خواتین کو اعلیٰ تعلیم سے روکنے کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا۔ قطر کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں لکھا ہے کہ وزارت خارجہ اس بات پر زور دیتی ہے کہ یہ منفی طرز عمل انسانی حقوق، ترقی اور افغانستان کی معیشت پر نمایاں اثرات مرتب کرتا ہے۔
وزارت خارجہ نے قطر کے اس موقف پر بھی زور دیا کہ وہ افغان عوام کے تمام حقوق، خاص طور پر تعلیم کے حق کے حصول کے لیے ان کی حمایت کر رہا ہے۔ قطر نے اپنے افغان اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے اپنے عزم کی بھی تجدید کی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ افغانستان میں ہر عمر کے لوگ تعلیم کے حق سے لطف اندوز ہو اور اس حق سے محروم نہ ہو۔
ترکیہ کے وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ تعلیم ایک بنیادی انسانی حق ہے جس سے تمام افراد کو مساوی مواقع کی بنیاد پر اور غیر امتیازی طریقے سے لطف اندوز ہونا چاہیے اور اس سے محروم نہیں ہونا چاہیے۔ ملک کی خوشحالی اور مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان کے لوگوں کی توقعات کے مطابق تمام لڑکیاں بغیر کسی رعایت کے تعلیم کی حقدار ہوں۔ اس سلسلے میں، ہم اپنی توقع کا اظہار کرتے ہیں کہ فیصلے پر نظر ثانی کی جائے گی اور جلد از جلد ضروری اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
وہیں دوسری جانب سعودی عرب کے وزارت خارجہ نے کہا کہ اسے افغان نگراں حکومت کے اس فیصلے پر افسوس ہے۔ سعودی نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس فیصلے کو واپس لیں، جو تمام اسلامی ممالک میں حیران کن اور افغان خواتین کو ان کے مکمل جائز حقوق دینے کے خلاف ہے، جن میں سب سے اہم تعلیم کا حق ہے۔ اور تعلیم ہی افغانستان کو سلامتی، استحکام، ترقی اور خوشحالی میں مدد کرسکتی ہے۔
نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے افغانستان میں لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی پر لکھا کہ طالبان ملک میں تمام کلاس رومز اور یونیورسٹی کے دروازے بند کیے جاسکتے ہیں لیکن وہ خواتین کے ذہنوں کو کبھی بند نہیں کرسکتے۔ وہ لڑکیوں کو علم حاصل کرنے سے نہیں روک سکتے اور نہ ہی سیکھنے کی جستجو کو ختم کرسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ رواں برس 15 اگست سے، افغان نگراں حکومت نے لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول جانے سے روک دیا ہے، خواتین اور لڑکیوں کی نقل و حرکت پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے، خواتین کو افرادی قوت کے زیادہ تر علاقوں سے باہر کر دیا ہے اور خواتین کے پارکس، جم اور عوامی غسل خانوں کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ پابندیاں افغان خواتین اور لڑکیوں کو ان کے گھروں کی چہار دیواری میں قید کرنے پر ختم ہوتی ہیں۔