ملک بھر میں ان دنوں مسلم لڑکیوں کے ارتداد کی جیسے ایک لہر چل پڑی ہے۔ حال ہی میں مدھیہ پردیش کے مندسور اور یوپی میں کئی مسلم لڑکیوں کی ہندو لڑکوں سے شادی کی خبریں سامنے آئی ہیں۔ ریاست اترپردیش کے ضلع بریلی میں میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک پنڈت نے دعوی کیا ہے کہ اس نے گذشتہ چھ برسوں میں 64 سے زائد مسلم لڑکیوں کی ہندو لڑکوں سے شادی کروائی ہے۔
بریلی: ریاست اترپردیش کے ضلع بریلی میں آگستیہ مُنی آشرم کے ایک پنڈت نے مقامی پولیس اسٹیشن جاکر سکیورٹی فراہم کرنے کا مطالبہ کیا اور اس نے پولیس کے سامنے دعوی کیا ہے کہ اس نے گذشتہ چھ سالوں کے دوران 64 سے زائد مسلم لڑکیوں کی ہندو لڑکوں سے شادی کروائی ہے اور 2022 میں 20 شادیاں کروائی ہے جس کے بعد اس کو دھمکی آمیز کال موصول ہورہے ہیں۔
پنڈت کے کے شنکدھر نے بریلی کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) اکھلیش چورسیا سے ملاقات کی اور سیکورٹی فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے گزشتہ چھ برسوں میں 64 مسلم خواتین کی ہندو مردوں کے ساتھ شادیاں کرائی ہیں اور صرف رواں سال میں انہوں نے اسی طرح کی 20 شادیاں کرائی ہیں۔
پنڈت نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ انہیں حال ہی میں ایک مزار کے قریب کچھ نوجوانوں نے روکا اور دھمکیاں دیں لیکن وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ پنڈت نے دعویٰ کیا کہ انہیں نجی نمبروں سے کالز موصول ہو رہی ہیں جہاں کال کرنے والے اس کا سر قلم کرنے کی مبینہ دھمکی دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کسی بھی وقت مجھ پر حملے کا اندیشہ ہے اور اس لیے پولیس سے سیکورٹی چاہتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ انہیں اس لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ وہ مسلم خواتین کے لیے ہندو مردوں سے شادی کرانے کی رسومات ادا کرتے ہیں اور شادی سے پہلے ان کا مذہب تبدیل کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ ایس ایس پی اکھلیش چورسیا نے کہا کہ میں نے پنڈت شنکدھر کی درخواست مقامی انٹیلی جنس یونٹ کے سرکل آفیسر کو بھیج دی ہے اور ان سے اس پر رپورٹ فراہم کرنے کو کہا ہے۔ رپورٹ کی بنیاد پر انہیں سیکیورٹی دینے کا فیصلہ کیا جائے گا۔