اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرو گے ہرگز بھلائی نہیں پاوگے۔ (سورہ آل عمران ) اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی میں سے خرچ کرو۔ (سورة البقرة) جب {لَن تَنَالوا البِرَّ حَتَّی تنفِقوا مِمَّا تحِبّونَ} آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوطلحہؓ حضور اکرم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے محبوب چیز کے خرچ کرنے کا ذکر فرمایا ہے، اور مجھے ساری چیزوں میں اپنا باغ (بَیرحَاء)سب سے زیادہ محبوب ہے، میں اس کو اللہ کے لئے صدقہ کرتا ہوں اور اس کے اجروثواب کی اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں۔ حضور اکرم ﷺنے فرمایا : اے طلحہؓ ! تم نے بہت ہی نفع کا سودا کیا۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ میرا باغ جو اتنی بڑی مالیت کا ہے وہ صدقہ ہے اور اگر میں اس کی طاقت رکھتا کہ کسی کو اس کی خبر نہ ہو تو ایسا ہی کرتا، مگر یہ ایسی چیز نہیں ہے جو مخفی رہ سکے۔ ( تفسیر ابن کثیر)
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت عمر فاروقؓ بھی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ مجھے اپنے تمام مال میں سے سب سے زیادہ پسندیدہ مال خیبر کی زمین کا حصہ ہے، میں اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں دینا چاہتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اسے وقف کردو۔ اصل روک لو، اور پھل وغیرہ اللہ کی راہ میں دے دو۔ (بخاری و مسلم شریف)
حضرت محمد بن منکدرؓ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت زید بن حارثہ ؓ کے پاس ایک گھوڑا تھا جو ان کو اپنی ساری چیزوں میں سب سے زیادہ محبوب تھا۔ (اس زمانہ میں گھوڑے کی حیثیت تقریباً وہی تھی جو اس زمانہ میں گاڑی کی ہے) وہ اس کو لے کر حضور اکرم ﷺ کی خدمت میںحاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یہ صدقہ ہے، حضور اکرمﷺ نے قبول فرمالیا اور لے کر ان کے صاحبزادہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو دیدیا۔ حضرت زیدؓ کے چہرہ پر کچھ گرانی کے آثار ظاہر ہوئے (کہ گھر میں ہی رہا ، باپ کے بجائے بیٹے کا ہوگیا) حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا صدقہ قبول کرلیا، اب میں چاہے اس کو تمہارے بیٹے کو دوں یا کسی اور رشتہ دار کو یا اجنبی کو۔ غرضیکہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعدصحابہ کرامؓ کی ایک جماعت نے اپنی اپنی محبوب چیزیں اللہ تعالیٰ کے راستے میں دیں، جن کو نبی اکرم ﷺ نے ضرورت مند لوگوں کے درمیان تقسیم کیں۔