امت مسلمہ کے سلسلہ میں قرآن پاک کا ارشاد ہے کہ وہ ایک بہترین امت ہے، اور پھر اس امت کے فرض منصبی کے بیان میں فرمایا گیا کہ بہترین امت ہونے کی حیثیت سے اس پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں،قرآن کی اسی آیت میںان ذمہ داریوں کو بھی صاف الفاظ میں بیان کردیا گیا ہے، کہ وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں، برائیوں سے روکتے ہیں اوراللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنہون عن المنکر وتؤمنون باللہ۔تم بہترین امت ہو جو بھلائی کا حکم دیتے ہو، برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
قرآن مجید کی اس آیت پر غور کرنے سے متعدد حقائق کا علم ہوتا ہے، اگر وہ حقائق نظروں کے سامنے رہیں تو اصلاح معاشرہ اور امت مسلمہ دونوں کے درمیان تعلق اور رشتہ آسانی سے سمجھ میں آجائے گا، اس آیت سے یہ بات بھی وضاحت کے ساتھ سامنے آجائے گی کہ سماج کی تشکیل نو میں بحیثیت امت مسلمہ ہم پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
اس آیت پر غوروفکر کے نتیجہ میں درج ذیل حقائق سامنے آتے ہیں۔
▪️1۔ پہلی حقیقت جو سامنے آتی ہے وہ یہ کہ امت مسلمہ کو اللہ رب العزت نے بہترین امت کی حیثیت سے منتخب کیا ہے، لہذا قرآن میں ان کوخیر امت اور دوسری جگہ امت وسط کہا گیا ہے، اور پھر پورے قرآن میں اس امت کو خطاب کرکے ہدایت ورہنمائی کے طور پر ایک مکمل پروگرام دیا گیا ہے جو ان کے لیے پوری زندگی میں، زندگی کے ہر گوشہ میں، اور تاقیامت وجود میں آنے والی زندگیوں کے لیے گائیڈ لائن کی حیثیت رکھتا ہے، اس کی ہدایت ورہنمائی کسی زمانے اور کسی مقام کے حدود وقیود کے ساتھ خاص نہیں۔
▪️2: دوسری حقیقت جو سامنے آتی ہے نیز گزشتہ حقیقت کے لیے لازمی شرط کی حیثیت رکھتی ہے وہ یہ کہ اس امت مسلمہ کومعاشرہ میں ایک رہنما کردار ادا کرنا ہے، انہیں بھلائی کا حکم دینا ہے اور برائیوں سے روکنا ہے۔وہ خواہ کسی بھی معاشرے میں ہوں یا کسی بھی سماج کا حصہ ہوں، وہ غالب ہوں یا مغلوب کی حیثیت سے سماج میں گزر بسر کررہے ہوںانہیں بہرحال یہ فریضہ انجام دینا ہے بصورت دیگر ان کے خیر امت ہونے پرسوالیہ نشان لگ سکتا ہے۔
▪️3: تیسری حقیقت جو مذکورہ بالا دونوں حقائق کے ساتھ چولی دامن کا تعلق رکھتی ہے وہ یہ کہ انہیں ہر حال میں اپنے ایمان پر ثابت قدم رہنا ہوگا۔
🔹 موجودہ معاشرہ
ہندوستانی معاشرہ اپنی نوعیت کا منفردمعاشرہ ہے۔ جہاں ایک طرف مختلف نوع کی تہذیب وثقافت ہیں، ملک کے جس گوشہ کا رخ کریں ایک نئی زبان ہے، رہنے سہنے کے الگ الگ ڈھنگ اور طریقے ہیں، مذاہب کے اعتبار سے دیکھا جائے تو متعدد مذاہب ہیں، ان مذاہب میں بھی انواع واقسام کے گروپس یا درجہ بندیاں ہیں، اور سب سے توجہ طلب امر انگریزوں کا ہندوستان پر اپنے اثرات چھوڑ کر جانا ہے، ملک کے باسیوں کے درمیان مختلف قسم کی دشمنیوں کا بیج ڈالنا جس کے نتیجہ میں آج تک ہندوستانی سماج تفریق، انتشار اور فرقہ واریت کا شکار ہے،اس طرح ہندوستانی سماج یا معاشرہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد معاشرہ بن جاتا ہے۔
یہ تو ایک مجموعی صورتحال ہے لیکن جب امت مسلمہ پر نظر دوڑائی جاتی ہے یا دوسرے الفاظ میں موجودہ مسلم معاشرہ کو دیکھا جاتا ہے تو عجیب وغریب سی تصویر نگاہوں کے سامنے آجاتی ہے۔ خواہ وہ سماجی حالت ہو، یا تعلیمی حالت، معاشی حالت ہو، یا دیگر امور ہوںایک عجیب وغریب سی صورتحال ہے،کہا جاتا ہے کہ مختلف میدانوں میں مسلمان دلتوں سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں، اس میں کہاں تک سچائی ہے نہیں معلوم ! لیکن اتنا تو ضرور ہے کہ مسلمانوں کی موجودہ حالت خود لسان حال سے وہ پیغام دے رہی ہے جس کو ماننا تو دور کی بات سننے کے لیے بھی دل آمادہ نہیں ہوتا۔ اس صورتحال کی جو کچھ بھی وجوہات ہوں، حکومت کی جس قدر بے اعتنائی کا شکوہ کرنا ہو کرلیا جائے، لیکن ایک حقیقت جس کا انکار اتنا آسان نہیں ہے وہ اپنی لاپرواہی، غفلت اوربے توجہی ہے۔ موجودہ معاشرے پر نظر ڈالنے سے تین باتیں سامنے آتی ہیں:
پہلی بات یہ کہ موجودہ معاشرہ کا ایک حصہ تو ان افراد پر مشتمل ہے جو مذہب کے باب میں ہم سے مختلف ہیں، اوراس کا اختلاف کبھی کبھی فرقہ وارانہ فساد تک پہنچ جاتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ معاشرہ کا ایک بڑا حصہ ان افراد پر مشتمل ہے جو کم از کم مذہب کی بنیاد پر ہم سے متفق ہیں لیکن ان میں سے ایک بہت بڑا طبقہ مختلف بدعات وخرافات اور ناواقفیت کا شکار ہے، اور مختلف بنیادوں پر آپس میں دست وگریباں ہے، ان کے باہمی اختلافات ونزاع کا ممکنہ حد تک خاتمہ، اور پھر مجموعی طور پر امت کے کردار کی بحالی کی جدوجہد ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ جب تک امت کی یہ مجموعی صورتحال درست نہیں ہوتی دوسرے محاذوں پر کام میں کافی دشواریوں کے امکانات ہیں۔
تیسری بات مغربی تہذیب کی چوطرفہ یلغار ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مغربی تہذیب موجودہ معاشرے کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے، اس تہذیب نے جہاں پورے عالمی نظام کو اپنا شکار بنا ڈالا ہے، وہیں اس کی چند باتیں معاشرہ کی سطح پر بھی اہمیت رکھتی ہیں، اس نے ذہنی وفکری طور پر ایک بڑے طبقہ پر اپنے اثرات ڈالے ہیں، اسلام کے خلاف عالمی تحریک کے نتیجہ میںعام ذہنوں کو طرح طرح کی غلط فہمیوں کا شکار بنا ڈالا ہے، خاندانی نظام جو کسی بھی معاشرہ میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، اس نظام کو بھی تہہ وبالا کرڈالا ہے، اس کے اثرات خواتین پر ، نوجوانوں پر ، طلبہ پر غرض کہ پورے سماج پر غیرمعمولی طور پر پڑے ہیں۔
ہندوستانی معاشرہ میں اصلاح معاشرہ کے کام کی پلاننگ کرتے وقت مذکورہ بالا امور کا خیال رکھا جائے گا، اور جو بھی پیش رفت کی جائے گی اس میں ان باتوں کا خیال کرنا بھی ضروری ہوگا۔ اسی کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی دھیان میں رکھا جائے گا کہ ملک کے مختلف گوشے تہذیبی بنیادوں پر ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں۔
🔹امت مسلمہ کی ذمہ داریاں
امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا فریضہ اپنے اندر کافی وسعت رکھتا ہے، امت پر عائد یہ فریضہ ایک مستقل عمل یا ایک مستقل ڈیوٹی ہے جس کی انجام دہی ضروری ہے، گھر میں رہنا ہے تو بھائی بہنوں اور بیوی بچوں کے درمیان اس فریضہ کو انجام دینا ہے، گھر کے باہر جس معاشرے اور جس سماج میں رہنا ہے وہاں یہ کام انجام دینا ہے۔بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا یا دوسرے الفاظ میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا کوئی جز وقتی کام نہیں ہے، بلکہ یہ ایک مسلم فرد سے لے کر ایک مسلم معاشرے تک کے لیے بنیادی حیثیت کا فریضہ ہے، جو مستقل توجہ کا طالب ہے، اس کے سلسلہ میں ایک دودن یا ایک ماہ دو ماہ کی توجہ کافی نہیں ہے بلکہ یہ مستقل توجہ اور مسلسل جدوجہد کا طالب ہے۔
ایک مسلم فرد سے خواہ وہ کوئی بھی ہو یہ باور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کہیں اور کبھی بھی اپنے سامنے برائیاں ہوتے دیکھے اور اس کی جانب سے کسی ردعمل کا اظہار نہ ہو، یہی وجہ ہے کہ برائی کو برائی سمجھ کر اس پر خاموشی اختیار کرنے کو ایمان کا ضعیف ترین درجہ قرار دیا گیا ہے، اس سے اونچا درجہ یہ ہے کہ اس برائی کو زبان سے برا کہا جائے، اور پھر سب سے افضل درجہ جو بیان کیا گیا ہے وہ اس برائی کو اپنے زور بازو سے روک دینا ہے۔
اب ظاہر ہے کہ ایک برائی کو روکنا اگر کسی کے بس میں ہے مگر وہ دیکھ رہا ہے کہ اس کی نگاہوں کے سامنے سب کچھ ہورہا ہے، اور وہ اس پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے تو یہ قابل مواخذہ امر ہے۔اس سلسلہ کی ایک اہم ہدایت اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفیﷺ کے اس ارشاد میں ملتی ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب کسی برائی کو دیکھو تو اسے بدلنے کی کوشش کرو ، اب یہ کوشش ہاتھ سے ہوگی اور ہاتھ سے روکنے پر قدرت نہ رہے تو زبان سے ہوگی اور اگر زبان سے بھی اس کو برا نہ کہہ سکتے ہوں تو پھر اس کو دل سے برا سمجھا جائے، اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ اذا رأی أحد منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ وان لم یستطع فبقلبہ وذلک أضعف درجۃ الایمان۔ تم میں سے کوئی شخص جب کوئی برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے روکے اور اگر نہ روک سکے تو پھر زبان سے روکے اور اگر ایسا بھی نہ کرسکے تو پھر دل سے اس کو برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔
موجودہ معاشرے میں کرنے کے کام مختلف قسم کی جدوجہد کے طالب ہیں۔ اس میں سب سے پہلی چیز فرد کی ذاتی اصلاح اور تزکیہ نفس ہے۔ دوسری اہم چیز اس کو اجتماعی شکل دینا ہے، کہ اینٹ خواہ کتنا ہی مضبوط ہو اس کی مضبوطی اسی وقت نظر آتی ہے جب وہ ایک مضبوط دیوار کا حصہ بن جاتا ہے۔اور پھر یہ اجتماعی شکل بھی بڑی اجتماعی شکلوں سے ربط اور تعلق کا تقاضا کرتی ہے کہ حلقہ جتنا بڑا ہوگا اتنا ہی زیادہ دوسروںکے تجربات اور افکار وخیالات سے استفادہ کا موقع ملے گا۔
امت کے درمیان اصلاح حال کی کوششوں میں ترجیحات کا تعین بھی کافی اہمیت رکھتا ہے، ترجیحات کا تعین نہ ہونے کے سبب امت کے اندر کافی مسائل سر اٹھاتے رہے ہیں، وہ باتیں جن کی بظاہرکوئی اہمیت نہیں تھی، وہ امت کے درمیان اس قدر اہمیت کی حامل تسلیم کرلی گئیں جو کسی طرح قابل قبول نہیں تھا،اسی سلسلہ میں مشہور اسکالر ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی لکھتے ہیں:
سب سے بنیادی مرض ہماری دینی ترجیحات کا خلط ملط ہوجانا ہے اور دینی تصور کا بگاڑ ہے۔
ملت میں یہ تصور پھیل گیا ہے کہ دین داری اور تقوی کے معنی صرف عبادات میں غیر معمولی شغف ہے، ایک ظاہری ہیئت اور طہارت اور پاکیزگی کا ایک خاص نظام ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر فرائض، نوافل اور مستحبات کو الٹ پلٹ دیا گیا۔ فرائض سے زیادہ نوافل کو اہمیت دی جاتی ہے۔ چاہے اس کے نتیجہ میں دوسرے فرائض نظر انداز ہوجائیں۔ نفلی حج کے لیے شوق پیدا کیا جاتا ہے چاہے اس کے نتیجہ میں صلہ رحمی کا حق ادا نہ ہوپائے اور غرباء ومساکین امت دانے دانے کومحتاج رہ جائیں۔۔۔۔(اصلاح معاشرہ : مفہوم اور تقاضے)
وقتا فوقتا سماج کے اندر اٹھنے والے آمین بالجہر اور اس جیسے دوسرے معاملات اسی کا نتیجہ ہیں، ترجیحات کے درمیان عدم توازن نے خود ہماری دینی ترجیحات پر بھی کافی اثر ڈالا ہے، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ کام تو پورے ہوگئے جو اتنے اہم اورضروری نہیں تھے لیکن وہ کام تکمیل یا توجہ سے محروم رہ گئے جو ان کے مقابلے میں اہم اور ضروری تھے، اوراس کا سب سے بڑا نقصان جو سامنے آیا وہ دوسروں کی بدگمانیوںاور غلط فہمیوںمیں اضافہ ہے، صحیح بات تو یہ ہے کہ ہم نے اپنے عمل کے ذریعہ برادران وطن کے سامنے اسلام کا کچھ ایسا ہی تعارف کرایا ہے۔
امت کی جہاں یہ ذمہ داری ہوگی کہ وہ امت کے درمیان اصلاح احوال کی کوشش کرے، وہیں اس کی یہ ذمہ داری بھی ہوگی کہ وہ ان برادران وطن کی طرف توجہ کرے جو دین ومذہب کے سلسلہ میں اس سے مختلف ہیں۔
اصلاح معاشرہ کا عمل صرف مسلم حلقوں تک ہی محدود نہیں ہونا چاہئے بلکہ دائرہ وسیع سے وسیع تر ہونا چاہئے، مسلم حلقوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم حلقوں کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے، اس سے جہاں دوسرے مختلف فائدے حاصل ہوں گے، اسلام کا تعارف ہوگا، اسلام کی دعوت عام ہوگی، مختلف سماجی ، اقتصادی، سیاسی قسم کے مسائل کے سلسلہ میں باہم تعاون کی فضا ہموار ہوگی، وہیں سب سے بڑا فائدہ یہ حاصل ہوگا کہ ہر ایک کو ایک دوسرے کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملے گا، اور نہ جانے کتنی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوگا جن کے سبب روز بروز ایک ہی سماج کے دو حصہ آپس میں دست وگریباں رہتے ہیں، دوریاں اور کشیدگیاں بڑھتی چلی جارہی ہیں، اور مغرب جو سب کا دشمن ہے وہ اپنے مفادات کے حصول میں مصروف ہے۔
🎁 سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ