ریاست اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں اِس وقت رام مندر کی تر تعمیر جاری ہے۔ عین اسی جگہ پر تیس سال پہلے بابری مسجد کے نام سے ایک عالیشان مسجد کھڑی تھی اس عظیم الشان مسجد کو 6 دسمبر 1992 کو فرقہ پرست عناصر کی جانب سے شہید کردیا گیا۔ اور 9 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ کے فیصلہ میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کے لیے اراضی کو ٹرسٹ کے حوالہ کردیا گیا اور سنی وقف بورڈ کو کسی دوسرے مقام پر مسجد تعمیر کے لیے زمین دی گئی۔
1528: بابر نے یہاں ایک مسجد کی تعمیر کرائی جس کا نام بابری مسجد رکھا گیا۔
1949: خفیہ طور سے بابری مسجد میں مورتی رکھ دی گئیں۔
1853: ہندوؤں نے یہ الزام عائد کیا کہ یہ مسجد رام کے مندر کو منہدم کر کے بنائی گئی تھی۔ پہلا تشدد اس مسئلے پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین ہوا تھا۔
1859: برطانوی حکومت نے متنازع زمین کے اندرونی اور بیرونی احاطے میں مسلمانوں اور ہندوؤں کو الگ الگ عبادت کے لئے اجازت دے دی اور ایک خاردار کھڑا کر دیا۔
1885: مقدمہ پہلی بار عدالت میں پہنچا۔ مہنت راگھوبر داس نے بابری مسجد سے متصل رام مندر بنانے کی اجازت کے لیے فیض آباد عدالت میں اپیل دائر کی۔
1959: نرموہی اکھاڑے نے متنازعہ اراضی سے متعلق ایک ٹرانسفر کی عرضی عدالت میں داخل کی۔
1961: میں یو پی سنی سنٹرل بورٹ نے بھی بابری مسجد پر قبضہ کی عرضی داخل کی۔
23 دسمبر 1949: مبینہ طور پر 50 کے قریب ہندوؤں نے مسجد کے مرکزی مقام پر رام کی مورتی رکھ دی، اس کے بعد ہندوؤں نے اس جگہ پر باقاعدگی سے پوجا شروع کی، مسلمانوں نے نماز پڑھنا چھوڑ دیا۔
16 جنوری 1950: گوپال سنگھ وشاراد نے فیض آباد عدالت میں رام للا کی پوجا کی خصوصی اجازت کے لیے اپیل دائر کی۔
5 دسمبر 1950: مہنت پرمہنس رامچندر داس نے بابری مسجد میں ہندوؤں کی پوجا جاری رکھنے اور رام کی مورتی کو رکھنے کے لیے مقدمہ دائر کیا۔ اس مسجد کو ‘دھانچا’ نام دیا گیا۔
17 دسمبر 1959: نرموہی اکھاڑا نے متنازع مقام کو منتقل کرنے کا مقدمہ دائر کیا۔
18 دسمبر 1961: اترپردیش سنی وقف بورڈ نے بابری مسجد پر ملکیت کے لیے مقدمہ دائر کیا۔
1984: وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے بابری مسجد کے تالے کھولنے اور رام جنم استھان کو خود مختار بنانے اور ایک بہت بڑا مندر بنانے کے لیے ایک مہم شروع کی۔ ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔
یکم فروری 1986: فیض آباد ڈسٹرکٹ جج نے متنازع جگہ پر ہندوؤں کو عبادت کرنے کی اجازت دی۔ تالے دوبارہ کھول دئے گئے۔ مشتعل مسلمانوں نے احتجاج میں بابری مسجد ایکشن کمیٹی تشکیل دی۔
یکم جولائی 1989: لارڈ راما للا وراجمان کے نام پانچواں مقدمہ دائر کیا گیا۔
جون 1989: بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے مندر کی نئی تحریک شروع کرتے ہوئے وی ایچ پی کو باضابطہ مدد دینا شروع کردیا۔
9 نومبر 1989: اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کی حکومت نے بابری مسجد کے قریب سنگ بنیاد کی اجازت دی تھی۔
25 ستمبر 1990: بی جے پی کے صدر لال کرشن اڈوانی نے گجرات کے سومناتھ سے اترپردیش کے ایودھیا تک رتھ یاترا نکالی، جس کے بعد ملک بھر میں متعدد مقامات پر فرقہ وارانہ فسادات برپا ہوئے۔
نومبر 1990: اڈوانی کو بہار کے سمستی پور میں گرفتار کیا گیا، اس کے بعد بی جے پی نے وزیر اعظم وی پی سنگھ کی حکومت سے حمایت واپس لے لی۔
اکتوبر 1991: اترپردیش میں کلیان سنگھ حکومت نے بابری مسجد کے ارد گرد 2.77 ایکڑ اراضی کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔
6 دسمبر 1992: ہزاروں کار سیوکوں نے ایودھیا پہنچنے کے بعد بابری مسجد کو شہید کر دیا۔ اس کے بعد فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ عارضی طور پر رام مندر بنائی گئی تاہم اس وقت وزیراعظم نرسمہا راؤ نے مسجد کی از سر نو تعمیر کا وعدہ کیا تھا۔
1994: الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ میں بابری مسجد انہدام کے تعلق سے مقدمہ کا آغاز ہوا۔
16 دسمبر 1992: مسجد انہدام کے ذمہ دار حالات کی تحقیقات کے لیے لبرہن کمیشن تشکیل دیا گیا۔
4 مئی 2001: خصوصی جج ایس کے شکلا نے بی جے پی رہنما لال کرشن اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی سمیت 13 رہنماؤں کو سازش کے الزام سے بری کر دیا۔
جنوری 2002: وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے اپنے دفتر میں ایودھیا کا محکمہ شروع کیا جس کا کام اس تنازع کو حل کرنے کے لیے ہندوؤں اور مسلمانوں کے ساتھ بات چیت کرنا تھا۔
اپریل 2002: ہائی کورٹ کے تین ججوں کی بینچ نے ایودھیا میں متنازع مقام کی ملکیت سے متعلق سماعت شروع کردی۔
5 مارچ 2003: الہ آباد ہائی کورٹ نے محکمہ آثار قدیمہ کو کھدائی کرنے کا حکم دیا تاکہ مندر یا مسجد کے حوالے سے ثبوت مل سکیں۔
اگست 2003: بھارتی آثار قدیمہ کے سروے نے الہ آباد ہائی کورٹ کی ہدایت پر ایودھیا میں کھدائی کی۔ بھارتی آثار قدیمہ کے سروے نے دعویٰ کیا ہے کہ مندر کے باقیات مسجد کے نیچے پائے گئے ہیں۔ اس بارے میں مسلمانوں میں مختلف آراء تھیں اور اس رپورٹ کو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے چیلنج کیا۔
ستمبر 2003: ایک عدالت نے فیصلہ سنایا کہ مسجد کو منہدم کرنے کے لیے ورغلانے والے سات ہندو رہنماؤں کو سماعت کے لیے بلایا جائے۔
26 جولائی 2010: معاملہ کی سماعت کر رہے الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے فیصلہ محفوظ رکھا اور تمام فریقین سے آپسی رضامندی سے حل نکالنے کی صلاح دی۔ لیکن کوئی فریق آگے نہیں آیا۔
جولائی 2009: لبرہن کمیشن نے اس کی تشکیل کے 17 سال بعد وزیراعظم منموہن سنگھ کو اپنی رپورٹ پیش کی۔
28 ستمبر 2010: سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کو متنازع کیس میں فیصلہ سنانے سے روکنے والی درخواست کو خارج کرتے ہوئے فیصلے کی راہ ہموار کردی۔
30 ستمبر 2010: الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ نے فیصلہ دیا۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے متنازع اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کیا، ایک حصہ رام مندر میں، دوسرا حصہ سنی وقف بورڈ اور تیسرا نرموہی اکھاڑا کے حوالے کر دیا۔
9 مئی 2011: سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگا دی
جولائی 2016: بابری مسجد کیس کے فریق میں سے ایک قدیم قانونی مقدمہ بازی کرنے والے ہاشم انصاری کا انتقال ہو گیا۔
21 مارچ 2017: سپریم کورٹ نے باہمی اتفاق سے تنازع کو حل کرنے کی بات کہی۔
19 اپریل 2017: سپریم کورٹ نے بابری مسجد انہدام کیس میں ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی سمیت بی جے پی اور آر ایس ایس کے متعدد رہنماؤں کے خلاف فوجداری مقدمات چلانے کا حکم دیا۔
16 نومبر 2017: ہندو گرو شری شری روی شنکر نے معاملہ کو حل کرنے کی کوشش شروع کی اور اس ضمن میں انہوں نے کئی فریقوں سے ملاقات بھی کی۔
فروری 2018: باقاعدگی سے سماعت کی اپیل خارج کردی گئی۔ 8 فروری کو سنی وقف بورڈ کی طرف سے سینئر وکیل راجیو دھون نے سپریم کورٹ سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے پر باقاعدہ سماعت کریں لیکن بنچ نے اپیل کو مسترد کردیا۔
عدالت نے 1994 کے اسماعیل فاروقی بنام یونین آف انڈیا معاملہ میں فیصلہ سنایا تھا کہ ’مسجد اسلام کا لازمی جز نہیں‘۔ اس کو چیلنج کرنے والی عرضی کو سپریم کورٹ نے مسترد کردیا لیکن یہ بھی واضح کیا کہ وہ فیصلہ مخصوص صورت حال میں زمین کو تحویل میں لینے کے لئے دیا گیا تھا اور اس کا اثر کسی دوسرے معاملہ پر نہیں ہوگا۔
27 ستمبر 2018: ’مسجد اسلام کا لازمی جز نہیں‘ معاملہ کو بڑی بینچ کے سامنے بھیجنے سے انکار۔
29 اکتوبر 2018: سپریم کورٹ نے مقدمہ کی جلد سماعت کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے معاملہ کو جنوری 2019 تک کے لئے ملتوی کر دیا۔
8 مارچ 2019: سپریم کورٹ نے معاملے کو ثالثی کے لیے بھیجا۔ پینل سے 8 ہفتوں میں کارروائی ختم کرنے کو کہا گیا۔
اگست 2019: ثالثی پینل حل تلاش کرنے میں ناکام رہا۔
یکم اگست کو ثالثی پینل نے رپورٹ پیش کی: 2 اگست کو سپریم کورٹ نے کہا کہ ثالثی پینل اس کیس کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس معاملہ کی روزانہ سماعت 6 اگست سے سپریم کورٹ میں شروع ہوئی۔
16 اکتوبر 2019: سپریم کورٹ میں بابری مسجد معاملہ کی سماعت مکمل ہوئی اور فیصلہ محفوظ رکھا گیا۔
9 نومبر 2019: سپریم کورٹ کی طرف سے فیصلہ سنایا گیا کہ بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کے لیے اراضی کو ٹرسٹ کے حوالہ کردیا جائے اور حکومت اس ٹرسٹ کو تشکیل دے۔ اس کے علاوہ متبادل کے طور پر سنی وقف بورڈ کو کسی دوسرے مقام پر مسجد تعمیر کے لیے زمین دی جائے۔
اگست 2019: مرکزی حکومت کی جانب سے رام مندر ٹرسٹ کا اعلان کیا گیا اور 5 اگست کو وزیراعظم نریندر مودی نے خود اپنے ہاتھوں سے مندر کی تعمیر کےلیے سنگ بنیاد رکھا اور پوجا کی۔