گذشتہ چند سالوں سے یہ دیکھا جا رہا ہے کہ عدالت کے فیصلے کے بغیر ملزمین کے گھروں پر بلڈوزر چلایا جا رہا ہے، یہ کام اس کثرت سے کیا جا رہا ہے کہ کئی لوگ اسے بلڈوزر کلچر کا نام دیتے ہیں، گھروں کا انہدام یہ سزا ہے اور سزا کا اختیار ہندوستان میں صرف عدلیہ کو ہے، پولیس محکمہ کو نہیں، اس لیے کہ پولس اگر بغیر سنوائی کے سزا دینے لگے تو یہ ظلم کے مترادف ہوگا اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے۔
اس کے علاوہ پولیس کے ذریعہ کی گئی کارروائی کے بعد عدالت کے فیصلے کا کوئی معنی مطلب نہیں رہ جائے گا، عدالت دو بارہ مکان تعمیر کا فیصلہ سنا دے تو بھی حکمراں اسے قانونی داؤ پیچ میں پھنسا کر فیصلہ کی تنفیذ نہیں ہونے دیتے ، افسران جواز کے لیے دو ر دراز کے حیلے تلاش کرتے رہتے ہیں اور عوام پر خوف ودہشت کا جو اثر ہوتا ہے وہ الگ ہے، اس سے آدمی نفسیاتی طور پر کمزور ہوجاتا ہے ۔
ایسا ہی ایک معاملہ آسام میں پیش آیا ، ایک تھانہ کو آگ لگانے کے الزام میں پولیس نے پانچ ملزمین کے گھر کو بلڈوزر سے منہدم کر دیا، گوہاٹی ہائی کورٹ نے اس کا از خود نوٹس لیا اور حکومت کے اس طریقۂ کار پر سوالات اٹھائے اور جواب طلب کیا کہ آخر بلڈوزر کی یہ کارروائی کس قانون کے تحت کی گئی ہے، چیف جسٹس آر ایم چھاپا نے حکومت کے وکیل کو کوئی ایسا فوجداری قانون دکھانے کو کہا جس کے تحت بغیر اجازت کے کسی کا گھر منہدم کر دیا جائے۔
چیف جسٹس نے بہت سخت لہجہ میں حکومت کے کارندوں کو بتایا کہ آپ ایس پی ہو سکتے ہیں، لیکن آپ کے کام کا دائرہ اور طریقہ کار قانون کے دائرہ سے باہر نہیں ہے، اگر اسی طرح کارروائی کی جاتی رہی تو کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا، جب وکیل نے بتایا کہ سرچ وارنٹ کی اجازت لی گئی تھی تو جج صاحب نے کہا کہ میں نے اپنے محدود مدت کار میں ایسا کوئی معاملہ نہیں سنا ، جس میں سرچ وارنٹ کی اجازت لے کر گھر منہدم کر دیاجائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ یہ گینگ وار ہے یا پولیس کی کارروائی؟ چیف جسٹس کے اس تبصرہ کی حیثیت محض تبصرہ ہی کی ہے، لیکن اندازہ لگتا ہے کہ پولیس کے ذریعہ کی جانے والی انہدامی کارروائی کو کم از کم گوہاٹی ہائی کورٹ غیر قانونی سمجھتی ہے۔
یقینا جن لوگوں نے سرکاری زمین پر غیر قانونی طور پر مکانات بنا رکھے ہیں یا کسی جرم میں ان کے مکان کو منہدم کرنا ضروری ہے تو حکومت یہ کام کر واسکتی ہے، لیکن ہندوستانی قانون کی رو سے اسے ملزمین کے خلاف مقدمہ کرنا چاہیے، ان لوگوں کو بھی مدعیٰ علیہ بنانا چاہیے، جن کی موجودگی میں غیر قانونی تعمیرات کا کام انجام پایا، عدالت میں اس کی سماعت ہو اور جب عدالت فیصلہ کر دے تو اس پر عمل کیا جائے یہ طریقہ جمہوری بھی ہے اورقانونی طور پر صحیح بھی، اب جب کہ گوہاٹی ہائی کورٹ نے اس سلسلے میں اپنی رائے دیدی ہے تو اس کوقانونی حیثیت دے کر عوام کو بلڈوزر کا رروائی کی وحشت اور دہشت سے نجات دلوانی چاہیے۔