ایک زمانہ تھا جب مسجدوں میں اکثر بڑی عمر والے نظر آتے تھے اور جوانوں کی تعداد نہ کے برابر ہوتی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ نظام زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہو، ایک دین داری اور دوسری دنیا داری۔ دین کی ذمہ داری بزرگوں پر تھی اور دنیا کی جوانوں پر اور دونوں گروپ اپنی۔اپنی ذمہ داری بخوبی نبھاتے نظر آتے تھے۔ وقت دھیرے۔دھیرے تبدیل ہوا۔ ایک جانب بزرگوں نے انٹرنیٹ اور موبائل کے اس جدید دور میں کچھ دنیا داری سیکھ لی تو جوانوں نے مسجد کی جانب اپنے قدم بڑھا دئے۔ اب اکثر مسجدوں میں جوانوں کی ماشاءاللہ اچھی خاصی تعداد دیکھی جا سکتی ہے۔
آج کے اس جدید دور میں تقریباً ہر شخص موبائل کا استعمال کرتا ہے، ضروری بھی ہے، لیکن اس سے ایک مسئلہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔ نماز کے لیے آنے والے تقریباً آدھے لوگ موبائل کے ساتھ مسجد آتے ہیں۔ ان میں بہت ایسے ہوتے ہیں جو اپنے موبائل کو سائلنٹ موڈ پر ڈالنا بھول جاتے ہیں۔ اکثر نماز میں دو تین بار ان موبائل کی رنگ ٹون سے محظوظ ہونے کا موقع بھی ملتا ہے۔ اب آج کل کے رنگ ٹونس کے بھی کیا کہنے۔ کچھ تو ایسے ہوتے ہیں کہ نماز میں کسی فلم یا کسی نغمے کی دھن کی یاد تازہ کرا دیتے ہیں۔ کچھ خاص نغموں کی دھن اگر ذہن میں باقی ہو تو اسے دھن ساز کی کامیابی ہی تصور کیا جائے گا۔ ویسے بھی آج کل کے جوان تو اس فن میں ماہر ہی ہوتے ہیں۔
اب ہم جیسے نمازی جو حالت نماز میں ہی اپنے خصوصی مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو ایسے مسائل بھی حل کرنے میں لگ جائے ہیں جو عام طور پر وہم و گمان میں بھی نہیں ہوں۔ ہمارے ذہن کو تو ویسے بھی نماز میں فرار کا ایک موقع درکار ہوتا ہے جو آج کل بہت آسانی سے میسر ہو جاتا ہے۔ جہاں کسی کے موبائل کی رنگ بجی ذہن اسی طرف مائل ہو گیا۔
اب چند دنوں پہلے کی بات ہے نماز میں کسی صاحب کا موبائل بجا۔ ساری توجہ نماز سے ہٹ کر اس دھن کی جانب لگ گئی۔ جلد ہی سمجھ میں آگیا کہ ”ڈر“ فلم کا گانا
‘‘جادو تیری نظر خوشبو تیرا بدن
تو ہاں کر یا نا کر تو ہے میری کرن’’
شاہ رخ خان اور جوہی چاولہ کی شاندار اکٹینگ کو یاد کیے بنا ذہن نہیں رہ سکا۔ پھر جب سنی دیول کا خیال آیا تو ذہن نے فیصلہ سنایا کہ فلم کی اسکرپٹ میں سنی کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔ اچھا ہی ہے کہ سنی نے آئندہ شاہ رخ کے ساتھ کام نہیں کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ابھی میرا فلم کے متعلق تنقیدی جائزہ مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ امام صاحب کے سلام کے ساتھ نماز مکمل ہو گئی۔
ایسا محسوس ہوا کہ ایک جھٹکے کے ساتھ ذہن دماغ کے اندر داخل ہوا۔ ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر اللہ کے سامنے شرمندہ ہونا پڑا۔ پھر تین بار استغفار پڑھ کر تہیہ کیا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ لیکن ایسا ارادہ کوئی پہلی بار تھوڑے ہی ہو رہا تھا۔ نماز میں ایسے حالات کا پیدا ہونا تو روٹین میں شامل ہو چکا تھا۔
آج کل مسجد میں کوئی صاحب آتے ہیں۔ ان کی رنگ ٹون میں علی گڑھ کا ترانہ لگا ہوا ہے۔ دو سے تین بار نماز میں علی گڑھ کے ترانے
‘‘یہ میرا چمن ہے میرا چمن
میں اپنے چمن کا بلبل ہوں’’
سے بھی لطف اندوز ہونے کا موقع ملا ہے۔
اب ایک انسان جس نے علی گڑھ سے تعلیم حاصل کی ہو اور ترانہ سن کر اس کا ذہن علی گڑھ نہ پہونچے ایسا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ وہ چنگی پر دوستوں کے ساتھ چائے کی چسکی، کلاس روم سے زیادہ وقت کامن روم میں گذارنا ، باب سید، شعبئہ آرٹس اور ہمارا ماس کام ڈپارٹمنٹ یاد آنا تو واجب ہو جاتا ہے۔ لیکن ذہن اتنے میں کہاں ماننے والا ہے جب تک عبداللہ گرلس ہال کے دروازے پر دستک نہ دے دے۔ اور ہاں امیرالنساء کو کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے۔
اب آپ سوچ رہے ہوںگے کہ یہ امیر النساء کیا چیز ہے۔ امیرانساء ایسی چیز ہے کہ کسی علیگ کے ذہن میں علی گڑھ کے تذکرے کے وقت امیرانساءکا خیال نہ آئے تو اسکے ‘‘علیگ’’ ہونے پہ ہی شک کیا جائے گا۔
چلئیے ایک مختصر سی کہانی سے آپکو بتا دوں کہ امیرالنساء کیا چیز ہے۔ غالباً سن 2005 کی بات ہے۔ میرے ایک عزیز دوست مجھ سے ملنے علی گڑھ آئے۔ میں نے انہیں ساری یونیورسٹی کی سیر کرا دیا۔ یونیورسٹی تو انہیں بہت پسند آئی لیکن ان کی باتوں سے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اب بھی کچھ کسک باقی ہے۔ تو میں نے اتوار کے روز انہیں امیرالنساء گھوما دیا۔ امیرالنساء میں حضرت کے چہرے کا انداز کچھ مختلف معلوم ہو رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جسم کی ساری توانائی کا استعمال وہ اپنی آنکھوں کے ذریعہ کر رہے ہوں۔ گلی کے ایک جانب سے دوسری جانب پہونچ کر جو کسک باقی تھی وہ پوری ہوگئی اور دوست محترم صرف اتنا بول پائے ‘‘یار یہ تو اپسرا گلی ہے۔’’
اسلام علیکم ورحمت اللہ،
اسلام علیکم ورحمت اللہ۔
دیکھا آپ بھی علی گڑھ کے خیالوں میں گم ہو گئے اور آج پھر نماز مکمل ہو گئی۔ پھر وہی استغفار، وہی شرم اور وہی عزم۔
ایک بار تو مسجد میں بڑی عجیب صورت حال پیش آئی۔ میرے بغل والے حضرت کا موبائل پوری ایک رکعت تک بجتا رہا لیکن بندہ خدا نے موبائل بند کرنا گوارا نہیں کیا۔ حالانکہ یہی شخص جسم کے کسی حصے پہ ہونے والی خارش اور مچھروں سے نمٹنے کے لیے کافی مہارت سے اپنے ہاتھوں کا استعمال کر رہا تھا۔ لیکن شاید موبائل کو بند کرنا اسکی شریعت میں عمل کثیر ہو۔ نماز کے بعد ایک عجیب صورت حال پیدا ہوئی، لوگ میری جانب مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگے۔ لوگوں کی مشکوک نگاہوں سے بچنے کے لیے میں نے جلدی سے اپنے بغل والے نمازی سے کہا
‘‘مچھر مار سکتے ہو موبائل بند نہیں کر سکتے’’
لیکن تب تک امام صاحب دعا کے لیے ہاتھ اٹھا چکے تھے اور بات آئی گئی ہو گئی۔
نمازوں میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی شخص کا موبائل پوری نماز بجتا رہے اور نماز کے بعد وہ شرمندہ ہونے کے بجائے بڑی شان سے اپنا بڑا سا موبائل نکال کر دیکھتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس موقع پہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنا موبائل عوام کو دیکھانا چاہتا ہے یا سچ میں اتنی اہم کال تھی جسکی اہمیت نماز سے زیادہ ہو، یا شاید نماز میں قبولیت کی شرط اب خشوع خضوع نہ ہو کر بڑا سا موبائل ہونا ہوگیا ہو جسے مسجد میں بھی لانا ضروری ہو۔
میں نے اکثر لوگوں سے سوال کیا کہ، لوگ اپنا موبائل سائلنٹ موڈ پر ڈال کر مسجد کیوں نہیں آتے؟ توجواب ملتا ہے کہ بھاگ دوڑ کی زندگی میں جلد بازی میں غلطی ہو جاتی ہے۔ پھر میں پوچھتا ہوں کہ مجھ سے غلطی کیوں نہیں ہوتی تو ذہن خود ہی جواب دیتا ہے کہ 1200 روپئے کا موبائل استعمال کرنے والوں سے ایسی غلطی نا ہی ہو تو بہتر ہے۔
اللہ کا کرم ہے کہ ابھی تک امام صاحب کی جانب سے کوئی فلمی دھن سننے کو نہیں ملی ہے لیکن دل ڈرتا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ آنے والے دنوں میں امام صاحب بھی فلمی دھن کے ساتھ سلام پھیرتے ہوئے نظر آئیں۔