تعلیم کے حوالے سے انسان کی ضرورتیں دو قسم کی ہیں، ایک تو مذہبی ضرورت ہے، جس کا ایک سرااس دنیا سے اور دوسرا آخرت سے جڑا ہوا ہے، یہ تعلیم دنیوی سعادت اور اخروی نجات کے لیے ضروری ہے، اسی لیے اس تعلیم کو فرض قرار دیا گیا ، جسے اصطلاح میں بنیادی دینی تعلیم کہتے ہیں، یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ سرکار کے رائٹ ٹو ایجوکیشن (تعلیم کے حق) سے الگ ایک چیز ہے، جب ہم حق کی بات کرتے ہیں تو اس سے لزوم کا پتہ نہیں چلتا، کیونکہ اپنے حق سے دست برداری کو سماج میں بُرا نہیں سمجھا جاتا، بلکہ اگر اس کا تعلق مالی حقوق سے ہو اور کوئی اس سے دست بردار ہوجائے تو اسے ایثار قرار دیا جاتا ہے۔
یہی حال ان تمام حقوق کا ہے جس کے نتیجے میں آدمی اپنا فائدہ چھوڑ کر دوسرے کو مستفیض ہونے کا موقع عنایت کرتا ہے، لیکن فرض وہ چیز ہے جس کی ادائیگی ہر حال میں لازم ہے، اور اگر کوئی فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کرے تو وہ باز پرس، دار وگیر اور سزا کا مستحق ہوتا ہے، اس لیے تعلیم کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض قرار دیا ، یعنی اس میں کوتاہی پر سزا بھی دی جا سکتی ہے، جبکہ حقوق کے حصول میں کوتاہی سزا کا موجب نہیں ہوا کرتا۔
یہ الگ بات ہے کہ بچے کے بجائے تنبیہ اور داروگیر گارجین کی ، کی جائیگی،کیونکہ بچوں کی طرف احکام متوجہ نہیں ہوتے۔تعلیم کے اس مرحلے کے لیے ضروری ہے کہ سماج کے ہر طبقہ کے بچہ کو کم عمری میں ہی تعلیمی اداروں سے جوڑ دیا جائے، انہیں زری کے کارخانوں اور ہوٹلوں سے اٹھاکر مکتب ، مدرسہ اور اسکول کی میز وچٹائی پر بیٹھا لا جائے تا کہ ان کی بنیادی دینی تعلیم سلیقے سے ہوسکے اور ان کا بچپنہ ضائع ہونے سے بچ جائے۔ پورے ہندوستان میں پھیلے مکاتب ومدارس الحمد للہ اس کام کو بڑے پیمانے پر کر رہے ہیں اور عمدگی اور خوش اسلوبی سے انجام دے رہے ہیں، لیکن خوب سے خوب تر کی تلاش جاری رہنی چاہیے۔
دوسرے علوم وہ ہیں جن کی ضرورت ہمیں اپنی زندگی بسر کرنے میں پڑتی ہے، اور چونکہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے، اس لیے ان علوم کو اس درجہ میں تو نہیں رکھا جا سکتا کہ سب کے اوپر اس کا حصول فرض قرار دیا جائے ، لیکن سماجی اور تمدنی ضرورت کے اعتبار سے مہذب سماج کی تشکیل ، عمرانی ضروریات اور زندگی برتنے کے فن کی واقفیت کے لئے الگ الگ علوم وفنون میں مہارت بھی ضروری ہے، ہمیں رہنے کے لیے گھر چاہیے اس گھر کا نقشہ بنانے کے لئے اچھے انجینئر کی ضرورت ہے، بغیر انجینئرنگ میں مہارت کے ہم اس کام کو سلیقے سے نہیں کرسکتے۔
یہ سلیقگی مکتبی تعلیم سے اوپر اٹھ کر جدید عصری اعلیٰ تعلیم کے ذریعہ ہی ممکن ہے ، اس کے لیے مسلمانوں کو انجینئرنگ کالج کھولنے بھی چاہیے اور اپنے بچوں کو اس شعبے میں تیار بھی کرنا چاہیے ، کیونکہ آج یہ معاشی استحکام کا بڑا ذریعہ ہے اور پوری دنیا میں سول اور میکینکل انجینئرنگ کی مانگ بہت زیادہ ہے، اس میدان میں آگے بڑھنے کا سیدھا مطلب اعلیٰ تعلیم میں مہارت کے ساتھ مسلمانوں کے افلاس اور پس ماندگی کو دور کرنا ہے۔
اسی طرح ہماری صحت کا مسئلہ ہے ، یہ ایک جسمانی ضرورت ہے ، اس کے لئے ہمارے پاس اچھے ڈاکٹر ہونے چاہیے ، جو ہماری بیماریوں کا علاج کر سکیں، میڈیکل کی تعلیم کے لیے ہمارے پاس میڈیکل کالج بھی ہونے چاہیے اور اچھے اسپتال بھی ، دو چار مسلمانوں کے میڈیکل کالج اور دس بیس اسپتال، آبادی کی ضرورت کو پوری نہیں کر پاتے ، یقینا اسپتال کا کام انسانی بنیادوں پر ہوتا ہے اور مریض اور اسپتال کے منتظمین کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ کون کس علاقے اورکس مذہب کا ہے، لیکن اسپتال بڑی تعداد میں ہوں گے تو مریضوں کو سہولت ہوگی اور کم خرچ میں علاج کے حصول کے لیے بھی سوچنا ممکن ہوگا۔
یہی حال دیگر سائنسی علوم میں مہارت کا ہے، ہمارے بچے ابتدائی تعلیم سے ثانوی تک جاتے جاتے گھر بیٹھنے اور معاشی وسائل کے حصول کے لیے فکر مند ہوجاتے ہیں، اعلیٰ تعلیم کی طرف توجہ کم ہے، اس لیے ہماری حصہ داری اوپر میں کم ہوتی جا رہی ہے، آئی، ایس ، آئی پی ایس، میں نمائندگی گھٹتی جا رہی ہے، سیاسی گلیاروں اور حکومت کے ایوانوں میں بھی آزادی کے بعد ہم مسلسل کم ہو رہے ہیں، ہمارے یہاں لیاقتوں کی کمی نہیں ہے ، کمی فکر مندی، منصوبہ بندی اور اس حوصلے کی ہے جو انسان کو آگے بڑھنے کے لیے مہمیز کیا کرتا ہے، یہ مہمیز کرنے والی قوت الگ ہونی چاہیے، اس کے لیے ادارے، تنظیمیں، جماعتیں، جمیعتیں اور سماج کے مختلف طبقات کو آگے آنے کی ضرورت ہے۔
آج سوشل سائٹس پر ملی قائدین کے خلاف سب وستم ، گالی گلوج اور بُرا بھلا کہنے کی مہم زوروں پر ہے ، اس بُرا بھلا کہنے والوں سے پوچھیے کہ تم کیا کر رہے ہو ؟ تو جواب ہو گا صرف تنقید، جو لوگ دوسروں کو بُرا بھلا کہنے میں اپنی توانا ئی صرف کر رہے ہیں، اگر وہ اپنی انرجی اور توانائی ملی مسائل کے حل، تعلیمی بیداری اور معاشی اعتبار سے مسلمانوں کو اٹھانے پر صرف کریں تو اس سے ملت کو بے پناہ فائدہ پہونچے گا ، کام آگے بڑھے گا، اس کے بر عکس ملی قائدین کو بُرا بھلا کہنے سے رہا سہا اعتماد بھی ختم ہو تا ہے، اور جو صاحب تنقید کی بساط بچھائے ہوتے ہیں ان کے اندر خود کچھ کرنے کی صلاحیت ہوتی نہیں اس لیے ایک خلا سا محسوس ہونے لگتا ہے۔
ہمیں اپنی صلاحیتوں کو جدید اعلیٰ تعلیم کے مواقع پیدا کرنے ، یونیورسٹی، کالج، انٹر کالج اور عصری علوم کے اداروں کے کھولنے میں لگانی چاہیے ، شرعی حدود وقیود کے ساتھ لڑکیوں کے لیے بھی تعلیمی ادارے کھولنے چاہیے اور ان کو آگے بڑھا نا چاہیے اس لیے کہ ایک مرد پڑھتا ہے تو فرد پڑھتا ہے ، لیکن ایک لڑکی پڑھتی ہے تو گھر پڑھتا ہے، خاندان کی تعلیم کی بنیاد پڑتی ہے، اور آنے والی نسل کے تعلیم یافتہ ہونے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں، ہمیں ذریعہ تعلیم کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے ، انگلش میں بچے کی مہارت اور چیز ہے اور ذریعہ تعلیم اسے بنانا بالکل دوسری چیز۔
ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ مادری زبان ابتدائی تعلیم کے حصول میں زیادہ معاون اور مؤثر ہے لیکن ہمارا رجحان انگلش میڈیم اسکولوں اور کنونٹوں کی طرف بڑھا ہوا ہے ، جس کی وجہ سے مسلمانوں کے بچے بھی اردو زبان سے نا بلد ہیں اور اردو کا بڑا سرمایہ ان کی پہونچ سے باہر ہے، ہمیں یہ اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ اردو صرف ایک زبان نہیں ہے، یہ ایک تہذیب ہے، یہ ایک ثقافت اور کلچر ہے، اردو زبان سے نابلد رہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک تہذیب اور ثقافت وکلچر سے نا بلد ہوتے جا رہے ہیں۔
ضرورت ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ہم اپنی مادری زبان کو فراموش نہ کریں، تاکہ ہماری تہذیب ، مذہب اور ثقافت سے ہمارا رشتہ منقطع نہ ہو، ان تمام باتوں کے ساتھ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ محض تعلیم کا حاصل کرلینا کافی نہیں ہے، بلکہ ہمیں ہر سطح پراعلیٰ اخلاقی اقدار بھی پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جس کے بغیر انسانی ہمدردی، خیر خواہی اور بھلائی کا تصور نا پید ہوتا ہے، یہ اعلیٰ اخلاقی اقدار پیدا ہوں گے تو ڈاکٹر مریض کو آپریشن ٹیبل پر لے جانے کے بعد دوسرے مرض کے انکشاف پر فیس بڑھانے کی بات نہیں کرے گا۔
انجینئر نقشہ بناتے وقت پڑوسی کے گھر کی ہوا، روشنی وغیرہ کے لیے فکر مند ہو کر نقشہ بنائے گا، سائنس داں مہلک ہتھیاروں کو بناتے وقت اس سے بچاؤ کی تدبیروں پر بھی ریسرچ کرے گا ، سیاست داں، ابن الوقتی ، خود غرضی، مفاد پرستی سے اونچا اٹھ کر بد عنوانی سے پاک سماج بنانے اور لوگوں کے فائدے کے لیے کام کریں گے، غرض تعلیم کے ساتھ تربیت بھی اتنہائی ضروری ہے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلبہ کی فراہمی کے لیے ہمیں ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے اداروں کے قیام پر بھی توجہ دینی چاہیے کیونکہ اعلیٰ تعلیم کے لیے معیاری طلبہ یہیں سے فراہم ہو سکتے ہیں، اور مقابلہ جاتی امتحان میں کامیابی کے بعد ملک وملت کے لیے کار آمد ہو سکتے ہیں۔
ان اداروں میں تربیتی نظام کو اعلیٰ پیمانے پر رائج کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان اداروں سے فاغ ہونے والے صرف ڈاکٹر انجیئر سیاست داں، دانشور نہ ہوں؛ بلکہ وہ اپنی خدمات کے ذریعہ فرد سے لے کر سماج کے مختلف طبقات کو فائدہ پہونچا سکے۔
ایک بڑا مسئلہ حصول تعلیم میں گراں قدر اخراجات کا ہے، مسلمانوں کی معاشی حالت عمومی طور پر ایسی نہیں ہے کہ وہ تعلیم کی انڈسٹری سے مطلوبہ علوم حاصل کر سکیں، اس کے لیے ان تمام سرکاری اور غیر سرکاری اسکیموں سے ہمیں طلبہ کو واقف کرانا چاہیے، جس سے فائدہ اٹھا کر ہمارے بچے تعلیم کو جاری رکھ سکیں، اور تعلیم چھوڑنے کے تناسب میں کمی آسکے۔
میرا خیال ہے کہ تھوڑی سی چوکسی اور مختلف تنظیموں کی طر ف سے تھوڑی معلومات کی فراہمی سے ہم اس پریشانی سے چھٹکارا پا سکتے ہیں، ضرورت ہے عزم وارادہ کی، عزم کمزور ہو اور ارادہ متزلزل تو مالی مشکلات راستے میں حائل ہوجائیں گی اور ان کو عبور کرنا آسان نہیں ہو گا، اس لیے ہمیں اپنے جوانوں میں، طالب علموں میں اعتماد پیدا کرنا چاہیے کہ تم ساری رکاوٹوں دشواریوں اور مشکلات کے باوجود بہت کچھ کر سکتے ہو بقول شاعر
ع۔ چٹانیں چور ہوجائیں جو ہو عزم سفر پیدا
ایک بڑا کام یہ بھی کرنے کا ہے کہ جو طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان کے لیے معیاری تعلیم کا نظم کیا جائے، ادارہ جس سطح کا ہو اور جس طرح کا بھی ، وہاں سے ہمارے فارغین اپنی اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے مکمل ہوں، ہم جانتے ہیں کہ یہ دور مقابلوں کا ہے، معیار کا ہے، کوالیٹی نہیں رہے گی تو ہم کمیپٹیشن کے اس دور میں بچھڑتے چلے جائیں گے۔
ہم جس معیار کی بات کرتے ہیں، وہ ہمارے مقابل سے کئی گنا آگے ہو، اس لیے کہ بحالی والا قلم جن کے ہاتھ میں ہے، وہ عام حالات میں ہم تک پہونچتے پہونچتے شل ہو جاتا ہے اور ہمارے طلبہ کو مختلف قسم کے تعصبات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس لیے ہمیں ہیوی اکسٹرا صلاحیت کے ساتھ میدان میں اترنا ہوگا، میں بات صلاحیت کی کر رہا ہوں، صرف نمبرات کی نہیں، نمبرات کے باوجود کاغذات کے اس ٹکڑے کے پیچھے علمی صلاحیت کا فقدان ہو تو ہمیں کوئی آگے نہیں بڑھا سکتا، ہمیں آگے بڑھنا ہے، علم کے میدان میں، تحقیق کے میدان میں، تجربات کے میدان میں اور اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ملک وملت کا مفید حصہ بننا ہے، یہ ایک تحریک ہے، یہ مہم ہے اس تحریک اور مہم کو کامیاب کرنے کے لئے سب کو آگے آنا چاہیے۔