ہندوستان میں اس وقت نفرت کی مارکیٹنگ کی جا رہی ہے ، اور تکثیری سماج کے ذریعہ اقلیتوں کو ہراساں کرنے کی جو مہم چل رہی ہے، اس نے یہاں کی گنگا جمنی تہذیب کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ سیکولرازم، رواداری اور ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے کی معنویت کھوتی جا رہی ہے، فرقہ پرست طاقتیں ہمیں نرم چارہ سمجھ رہی ہیں اور ہم ان سے بھائی چارگی کی توقع لیے بیٹھے ہیں، اس کے لیے ہم کسی حد تک بھی جانے کو تیار ہیں، لیکن تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، ہماری ساری کوششیں فرقہ پرستوں کی منافرت پھیلانے والی ترکیبوں اور اشتعال انگیز تقریروں کی وجہ سے غیر مؤثر ثابت ہو رہی ہیں اور ہم نفرت کی اس تیز آندھی میں محبت کے لئے اپنے جلائے ہوئے چراغ کو بجھتا دیکھنے کے لیے مجبور ہیں۔
ان حالات میں سپریم کورٹ کی جانب سے ایک سخت حکم آیاہے، فاضل ججوں نے دہلی، اتر پردیش اور اترا کھنڈ حکومت کو اپنے سخت ترین حکم میں کہا ہے کہ اشتعال انگیز بیانات پر روک لگنی چاہیے اور اشتعال انگیزی کرنے والا کوئی ہو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، سپریم کورٹ نے پولیس کو بھی ہدایت دی ہے کہ وہ کسی کے ایف آئی آر درج کرانے کا انتظار نہ کرے، بلکہ اس کا از خود نوٹس لے کر کیس درج کرے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی واضح کر دیاہے کہ ایسے معاملات میں کارروائی کا نہ ہونا یا کارروائی میں ناکامی سپریم کورٹ کی توہین کے مترادف ہوگا۔
ملک میں اشتعال انگیز بیانات اور نفرت آمیز تقریروں کے خلاف شاہین عبد اللہ نے سپریم کورٹ میں عرضی لگائی تھی، جس کی سماعت جسٹس کے ایم جوزف اور رشی کیش رائے کی دو نفری بینچ نے کی، دونوں ججوں نے صاف طور پر کہا کہ ’’عدالت پر بنیادی حقوق کی حفاظت اور آئینی اقدار بالخصوص قانون کی حکمرانی اور ملک کے سیکولر جمہوری کردار کے تحفظ کا فرض عائد کیا گیا ہے‘‘۔ جسٹس رشی کیش نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’ اس طرح کے بیانات ایک ایسے ملک کے لیے کافی چونکا دینے والے ہیں، جو مذہب کے سلسلے میں غیر جانبدار ہو،‘‘ جب کہ جسٹس کے ایم جوزف کا احساس تھا کہ ’’اکیسویں صدی میں جب ہندوستان کو سیکولر اور روادار معاشرہ کے طور پر سامنے آنا چاہیے مذہب کے نام پر سماجی تانے بانے کو تباہ کیا جا رہا ہے، ہم نے ایشور کو اتنا چھوٹا کر دیا ہے کہ اس کے نام پر جھگڑے اور فسادات ہو رہے ہیں۔‘‘
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے ، جب سپریم کورٹ نے سخت رخ اپنا یا ہے، اس کے قبل ہماچل پردیش کے دھرم سنسد میں نفرت انگیز تقریر کے خلاف جسٹس اے ایم کھانولکر اور جسٹس سی ٹی روی کمار نے اپریل میں جاری اپنے ایک فیصلے میں اس قسم کی تقریر پر روک لگانے کو یقینی بنانے کا حکم دیا تھا۔ ۱۰؍ اکتوبر کو چیف جسٹس یویو للت اور جسٹس ایس روندر بھٹ کی بینچ نے صاف طور پر کہا تھا کہ نفرت انگیز بیانات کے سلسلے کو روکنے کے لیے حکومت کچھ نہیں کر رہی ہے۔
جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس رشی کیش رائے کی اسی بینچ نے گذشتہ ستمبر میں سرکار سے دریافت کیا تھا کہ مرکزی حکومت اس کو روکنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہی ہے، اور لاء کمیشن نے ۲۰۱۷ء میں جو ہدایت دی تھی کہ ہیٹ اسپیچ کی تعریف متعین کی جائے، اس پر عمل کیوں نہیں ہوا؟ لیکن سرکار پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا کیوں کہ یہ سرکارہی گونگی، بہری ہے۔
دیر سے ہی سہی، عدالت کا موجودہ حکم اب تک کے فیصلوں میں سب سے سخت ہے، اگر یہ فیصلہ پہلے آیا ہو تا تو گڑگاؤں کی مسجد کو شر پسندوں کے حملے سے بچایا جا سکتا تھا، دھرم سنسد، وشوہندو پریشد کے اجتماعات اور ہندو یووا واہنی کے پروگرام میں اشتعال انگیزی نہیں ہوتی تو، دہلی فساد کو روکا جا سکتا تھا۔
اگر حکومت اس معاملہ میں سخت ہوتی تو مسلمانوں کے معاشی وتجارتی بائیکاٹ کا بر ملا اعلان کرنے والے رکن پارلیمنٹ پر ویش ورما اور اتر پردیش کے رکن اسمبلی نند کشور گوجر آج جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے، پردیش ورما نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ مسلمانوں کا دماغ ٹھیک کرنا ہے تو ان کا مکمل بائیکاٹ کردو، نہ خرید وفروخت کرو اور نہ مزدور دو۔
اس نفرت انگیز اور شرمناک بیان کا حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا، جس سے ان کے حوصلے اور بلند ہو گیے اور یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا، عالمی سطح پر اس طریقہ کار کی وجہ سے ہندوستان کو بد نامی اور خفت کا سامنا کرنا پڑا، اب بھی وقت ہے کہ سپریم کورٹ کی اس ہدایت پر سختی سے عمل کرکے ہندوستان سے نفرت کی فضا کو ختم کیا جا ئے تاکہ، اور عالمی سطح پر اس کی ساکھ بحال ہو سکے۔