ماہ اکتوبر میں ہونے والے نفرت انگیز واقعات پر ایک نظر
حالات حاضرہ

ماہ اکتوبر میں ہونے والے نفرت انگیز واقعات پر ایک نظر

حیدرآباد: ماہ اکتوبر تہواروں کا موسم ہے۔ اگرچہ یہ ہمیشہ ایک خوشی کا موقع ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے اس مہینے میں بھی ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت اور فرقہ وارانہ واقعات پیش آئے ہیں۔ اکتوبر میں پیش آئے فرقہ وارانہ واقعات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

یکم اکتوبر: ہمیشہ کی طرح ملک بھر میں اس سال بھی گربا منایا جا رہا تھا تو اس دوران کئی مقامات پر گربا کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دے دیا گیا، کئی مقامات پر فرقہ پرست عناصر نے آئی ڈی کارڈ دکھا کر گربا میں جانا لازمی کردیا تھا تاکہ مسلم نوجوانوں کو گربا میں شامل ہونے سے روکا جاسکے۔ مدھیہ پردیش کے اجین ضلع میں بجرنگ دل کے اراکین نے دعویٰ کیا کہ شناخت چھپا کر گربا کے مقام میں مبینہ طور پر داخل ہونے کے الزام میں تین "غیر ہندوؤں” کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

2 اکتوبر: گجرات کے وڈودرا ضلع کے ساولی قصبے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ تصادم ہوا جس میں ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا گیا۔ یہ واقعہ یکم اکتوبر کو برقی کھمبوں پر کمیونٹی کے جھنڈے لگانے پر گرما گرم بحث کے بعد پیش آیا۔ جلد ہی یہ بحث پتھراؤ کے واقعے میں بدل گئی۔ دونوں برادریوں کے تقریباً 36 افراد کو گرفتار کیا گیا۔

دو اکتوبر کو ہی کرناٹک کے اڈپی ضلع میں ہندو جاگرانا ویدیکے کی طرف سے 10,000 کارکنوں کی ایک زبردست ریلی نکالی گئی۔ ’’ہندو راشٹر‘‘ کے نعرے لگائے گئے اور کچھ کارکنان پولیس کی موجودگی میں تلواریں اٹھائے ہوئے تھے۔ اُڈپی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایم ایل اے رگھوپتی بھٹ کو بھی ریلی میں دیکھا گیا۔

3 اکتوبر: مدھیہ پردیش میں مندسور ضلع انتظامیہ نے مسلمانوں کے تین گھروں کو یہ دعویٰ کرتے ہوئے بلڈوز کر دیا کہ وہ غیر قانونی طور پر بنائے گئے تھے۔ یہ واقعہ نوراتری کے ساتویں دن ایک 14 سالہ مسلمان لڑکے سلمان خان اور ایک 32 سالہ ہندو شخص شیو لال پاٹیدار کے درمیان جھڑپ سے پہلے پیش آیا تھا۔

شیو لال نے سلمان کے دادا سے نوجوان کی مبینہ طور پر تیز رفتار ڈرائیونگ کی شکایت کی تھی۔ دادا ایک گربا پنڈال کے قریب بیٹھے تھے۔ ایک گرما گرم بحث جلد ہی لڑائی میں بدل گئی۔ پولیس موقع پر پہنچی، اور رات گئے تلاشی کے دوران تین مسلمانوں کو حراست میں لے لیا جبکہ مزید چار کو گرفتار کیا۔ اگلے دن گھروں کو بلڈوز کر دیا گیا۔

اسی دن یعنی 3 اکتوبر کو ہی اتر پردیش کے اٹاوہ میں ایک "گلوکار” دھرمیندر پانڈے نے ہندوؤں کو ‘ہندو راشٹر’ قرار دینے کے لیے ہتھیار اٹھانے کے لیے تیار رہنے کو کہا، وزیراعظم نے آپ کو اپنے گھروں پر جھنڈا لہرانے، تھالیاں پیٹنے اور چراغ جلانے کا کہہ کر آپ کا امتحان لیا ہے۔ آپ سب کو اپنے گھروں میں ایک تیز درانتی رکھنی چاہیے اور بہنوں کو اپنے چمٹے تیز کرنے چاہیے – آپ کو اس کی ضرورت ہو سکتی ہے جب مودی جی ہندو راشٹر کی کال دیتے ہیں‘‘۔ اس کا یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا تھا۔

چھتیس گڑھ کے کاوردھا ضلع میں میلاد النبی ﷺ (پیغمبر اسلام کے یوم ولادت) کے موقع پر سبز ہلال پرچم لہرانے پر جھڑپیں ہوئیں۔ فری پریس جرنل کے مطابق دائیں بازو کی ایک تنظیم ہندو سینا کے ارکان نے مبینہ طور پر مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے والے جھنڈے اٹھائے اور انہیں پھاڑ دیا۔

4 اکتوبر: گجرات کے کھیڑا ضلع میں نوراتری کی تقریبات کے دوران جھڑپیں ہوئیں۔ مبینہ طور پر مسلمانوں کا ایک گروپ اندھیلا گاؤں میں نوراتری گربا کے مقام میں داخل ہوا اور پتھراؤ شروع کر دیا۔ پولیس کے مطابق چھ افراد کے زخمی ہوئے تھے۔ تین افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ تاہم پولیس اہلکاروں نے قانون کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے انہیں کھمبے سے باندھ کر سرِعام پٹائی کی اور لوگ ان کی پٹائی پر تالیاں بجاتے رہے۔

اسی دن سورت میں ایک اور فرقہ وارانہ واقعہ پیش آیا جہاں ایک گربا پروگرام کے دوران بجرنگ دل کے کارکنوں اور اقلیتی برادری کے ‘باؤنسروں’ میں جھڑپ ہوئی۔ انہوں نے گربا کی رات کے موقع پر اچانک چیکنگ کی اور انہیں پتہ چلا کہ آرگنائزر نے ایک سیکورٹی ٹیم کی خدمات حاصل کی تھیں، جس میں مسلمان باؤنسر تھے۔ کارکنوں نے آرگنائزر سے کہا کہ وہ سیکورٹی سروس کو منسوخ کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ کوئی مسلمان باؤنسر ڈیوٹی پر نہ ہو۔ تاہم، ایسا نہیں ہوا، اور دائیں بازو کی تنظیموں اور مسلمان مردوں کے درمیان تصادم کا باعث بنا۔

5 اکتوبر: تلنگانہ کے سنگاریڈی ضلع (حیدرآباد سے تقریباً 60 کلومیٹر دور) کے بیاتھول گاؤں، کنڈی منڈل میں اس وقت ہنگامہ برپا ہو گیا جب کچھ شرپسندوں نے ایک قدیم مسجد پر بھگوا جھنڈا لہرا دیا اور ہندو مذہبی تحریریں تراشیں۔ عبادت گاہ گولکنڈہ یا قطب شاہی دور کی مسجد ہے (1518-1687)، اور دسہرہ کے تہواروں کے دوران اس کی بے حرمتی کی گئی۔ گاؤں کے بزرگوں بشمول سرپنچ اور حکمراں پارٹی کے دیگر قائدین نے مسجد پر بھگوا جھنڈا لہرایا اور ‘اوم’ کا نشان کندہ کیا۔

6 اکتوبر: کرناٹک کے بیدر میں ایک ہندو ہجوم نے محمود گاون مدرسہ کی مسجد میں زبردستی پوجا کی۔ ہندوستان گزٹ سے حاصل کردہ ایک ویڈیو میں ایک ہندو گروپ کو دکھایا گیا ہے، جو دسہرہ تہوار کے موقع پر ‘دیوی جلوس’ نکال رہا تھا۔

ہائی کورٹ کے ایڈوکیٹ سید طلحہ ہاشمی نے بتایا کہ یہ واقعہ تقریباً 1 بجے پیش آیا۔ ہندو ہجوم جئے شری رام، جئے ہندو دھرم، وندے ماترم کے نعرے لگا رہا تھا۔ انہوں نے مسجد کے احاطے میں پوجا کی۔ مسجد کمیٹی کے رکن محمد شفیع الدین کی شکایت کی بنیاد پر بیدر پولیس نے 9 لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔

8 اکتوبر: میلاد النبی کے موقع پر کولکتہ کے مومن پور علاقے میں دو برادریوں کے درمیان جھڑپوں کی اطلاع ملی جب مبینہ طور پر مسلم مذہبی جھنڈوں کی توڑ پھوڑ کی گئی۔ 40 کے قریب افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔ مزید برآں، تشدد کے سلسلے میں بی جے پی کے ریاستی صدر سکانتا مجمدار سمیت پانچ لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ پولیس نے امن برقرار رکھنے کے لیے 10 سے 12 اکتوبر تک دفعہ 144 سی آر پی سی نافذ کی تھی۔

22 اکتوبر: کرناٹک کے شیوموگا ضلع میں ‘ ساورکر سامراجیہ ‘ کے نام سے ایک بائیک ریلی نکالی گئی جس میں بجرنگ دل کے مقتول کارکن ہرشا کی بہن اشونی نے مبینہ طور پر حصہ لیا۔ رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ اشونی نے 10-15 افراد کے ساتھ سید پرویز نامی ایک مسلم ٹیچر کی کار میں توڑ پھوڑ کی۔ سید نے اشونی اور مزید 10 لوگوں کے خلاف گھر کے باہر کھڑی کار کو نقصان پہنچانے اور "جے شری رام” کا نعرہ لگانے پر شکایت درج کروائی۔

25 اکتوبر: گجرات کے وڈودرا میں دیوالی کی رات پانی گیٹ علاقے میں دو برادریوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ جب کہ پولیس کو ابھی تک صحیح وجہ کا پتہ نہیں چل سکا تھا، ایک شخص کو اس کی چھت سے پیٹرول بم پھینکنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔