جمعیۃ علماء ہند کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق پلیس آف ورشپ ایکٹ کے قانون کی آئینی حیثیت کے معاملے میں سالیسٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یہ ایک انتہائی حساس معاملہ ہے اور انہیں حکومت کے اعلی عہدے داران سے مزید گفتگو کرنی ہے نیز حکومت کا موقف عدالت میں پیش کرنے کے لیے انہیں مزید وقت درکار ہے لہذا عدالت اس مقدمہ کی سماعت دسمبر مہینہ میں کرے گی تو اچھا ہوگا۔سالیسٹر جنرل کی درخواست پر چیف جسٹس نے انہیں مہلت دیتے ہوئے معاملے کی سماعت 12دسمبر تک ملتوی کردی۔
دریں اثنا ڈاکٹر سبرامنیم سوامی جنہوں نے پلیس آف ورشپ قانو ن کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا ہے چیف جسٹس کو بتایا کہ پورے قانون کو ختم کرنے کے حق میں نہیں ہیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ ایسی دو عبادت گاہوں کو اس فہرست میں شامل کرلیا جائے جس طرح سے بابری مسجد کو شامل کیا گیا تھا، حالانکہ سبرامنیم سوامی نے ان دو عبادت گاہوں کا نام نہیں لیا لیکن شاید وہ گیان واپی اور کاشی متھرا مقامات کا ذکر کررہے تھے۔
جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے ایڈوکیٹ ورندا گروور نے چیف جسٹس کا بتایا کہ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل رٹ پٹیشن کو عدالت نے سماعت کے لیئے منظور کرلیا ہے لیکن ابھی تک مرکزی حکومت نے ان کی پٹیشن پر بھی جواب داخل نہیں کیا ہے لہذا مرکزی حکومت کو حکم دیا جائے کہ وہ جمعیۃ علماء کی پٹیشن پر بھی جواب داخل کرے اور تمام پٹیشن کے ساتھ جمعیۃ علماء کی پٹیشن پر بھی سماعت ہو، چیف جسٹس نے ورندا گروور کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے رجسٹری کو حکم دیا کہ معاملے کی اگلی سماعت پر یعنی کے 12 دسمبر کو جمعیۃ علماء کی پٹیشن کو بھی سماعت کے لیئے پیش کیا جائے۔
صدر جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے اس معاملے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 1991 کے قانون لانے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ جہاں مستقبل میں ملک کے مذہبی مقامات کا تحفظ ہو وہیں ہندوستانی معاشرے مذہب کے نام پر لڑنے بچانا تھا تاکہ سب مذہبی مقامات محفوظ رہ سکیں، کیونکہ مذہبی مقامات کے تنازعات بہت حساس ہوتے ہیں جو کہ قانون بالا دستی کو نہ صرف چیلنج کرتے ہیں بلکہ سماج کے امن وسکون کو بھی درھم برھم کردیتے ہیں۔
مولانا مدنی مزید کہا کہ مذہبی عبادت گاہوں سے متعلق 1991ء کے اہم قانون میں ترمیم یاتبدیلی کے بجائے اس قانون کو مضبوطی سے لاگو کرنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ جس کے سیکشن 4/ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ہے کہ ”یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ 15/ اگست 1947ء میں موجود تمام عبادت گاہوں کی مذہبی حیثیت ویسی ہی رہے گی جیسی کہ اس وقت تھی“۔