کچھ پیشے اور کام ایسے ہوتے ہیں جن میں مردوں کی اجارہ داری یا غلبہ نظر آتا ہے۔کبھی کوئی سوچتا نہیں کہ اس قسم کی ذمہ داری یا پیشہ کوئی خاتون بھی کرسکتی ہے۔ ایسی سوچ کو غلط ثابت کرنے والے شخصیات آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں۔ جو معاشرے کے تصور کو غلط ثابت کرکے سب کو حیران اور ششدر کردیتے ہیں۔
ایسا ہی ایک نام ہے مرزا سلمی بیگ ہے۔ یہ ریلویز کی ملازم ہیں لیکن نہ تو گارڈ اور نہ ہی موٹر مین، بلکہ یہ ہیں ’گیٹ ویمن‘۔ ملہور ریلوے کراسنگ لکھنؤ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ مرزا سلمیٰ بیگ گزشتہ 10 سالوں سے گیٹ وومن کی حیثیت سے اس کراسنگ پر کام کر رہی ہیں۔ پہلی بار یہاں سے گزرنے والے شخص کو ریلوے کراسنگ پر کام کرتے دیکھ کر حیرت کی انتہا نہ رہی۔
مرزا سلمیٰ بیگ کو 2013 میں ملک کی پہلی گیٹ ویمن مقرر کیا گیا تھا۔ تب وہ صرف 19 سال کی تھی۔ سلمیٰ لکھنؤ کی رہنے والی ہے۔ عام طور پر مرد ریلوے کراسنگ پر کام کرتے ہیں۔
سلمیٰ کو حجاب میں کام کرتے دیکھ کر لوگ تعریف کیے بغیر نہیں رہتے۔ بعض اوقات وہ سیلفی لینے بھی آتے ہیں۔ سلمیٰ ملک کی پہلی گیٹ ویمن کے طور پر مشہور ہیں۔ ملہور ریلوے کراسنگ بہت مصروف ہے۔
سلمیٰ کا کہنا ہے کہ گیٹ بند کرتے اور کھولتے وقت انہیں اس بات کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ وہ ہاتھ میں سرخ اور سبز جھنڈی کے ساتھ اس وقت تک کھڑی رہتی ہیں جب تک کہ ٹرین پھاٹک کو مکمل طور پر کراس نہیں کر لیتی ہے۔
تقرری پر تنازع
جب 2013 میں سلمیٰ کا تقرر ہوا تو اخبارات میں ان کی تقرری پر سوالات اٹھائے گئے۔ تنازع بڑھنے پر ریلوے حکام کو واضح کرنا پڑا کہ پہلے بھی یہ ملازمت مرد اور خواتین دونوں کے لیے ہے لیکن عورتیں لاپرواہی سے درخواستیں دیتی تھیں۔ جس کی وجہ سے سلمیٰ سے پہلے کسی خاتون کو اس کام کے لیے مقرر نہیں کیا گیا۔
سلمیٰ نے اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ اس کے والد مرزا سلیم بیگ بھی کراسنگ پر گیٹ مین تھے۔ سماعت کی کمزوری اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے انہیں رضاکارانہ سبکدوش ہونا پڑا۔ بدلے میں بیٹی کو نوکری کی پیشکش کی گئی۔ سلمیٰ کی والدہ فالج میں مبتلا تھیں۔ والد کی ریٹائرمنٹ کے بعد خاندان میں کمانے والا کوئی نہیں تھا اس لیے سلمیٰ نے پڑھائی چھوڑ کر یہ نوکری قبول کر لی۔ ملازمت ملنے پر رشتہ دار ناراض ہو گئے۔ سلمیٰ اپنی کامیابی کا کریڈٹ اپنے والدین کو دیتی ہے۔ سلمیٰ کو اپنے 10 سالہ ملازمت کے سفر پر فخر ہے۔
ریلوے کراسنگ پر گیٹ بند کرنے اور کھولنے کا بھاری کام سلمیٰ بیگ نے اپنی ہمت اور بہادری سے کیا اور اعتراض کرنے والے لوگوں کے منہ بند کردیے ۔ وہ پچھلے 10 سالوں سے یہاں کھڑی ہے۔ سلمیٰ کہتی ہیں، اب پورا عملہ ان کا حامی ہے۔
وہ اپنی 12 گھنٹے طویل ڈیوٹی پوری ذمہ داری اور قابلیت کے ساتھ کرتی ہیں۔ وہ ایک بچے کی ماں ہے۔ ماں ہونے کے باوجود وہ اپنا فرض پوری لگن سے ادا کررہی ہیں۔ اب لوگ اسے پہچاننے لگے ہیں۔ لوگ اس کے ساتھ سیلفی لینا اور اس کے کام کو سراہنا پسند کرتے ہیں۔