آسٹریلیا میں ایک مسلم طالبہ کو ٹیچر نے کلاس میں پیغمبر اسلام ﷺ کا توہین آمیز کارٹون دیکھنے پر مجبور کیا۔
میلبورن میں 11ویں جماعت کی طالبہ سارہ عمار نے انادولو ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ”میرے میڈیا ٹیچر نے یہ کارٹون ٹیلی ویژن پر ڈالا اور پھر کہا کہ دیکھو یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ حضور ﷺ کی گستاخی پر مبنی کارٹون کی وجہ سے میں حیران ہوکر رہ گئی، میں واقعی اداس اور صدمے میں تھی کہ کس طرح کلاس میں پیغمبر اسلام ﷺ کی گستاخی پر مبنی کارٹون کو دکھایا جارہا ہے۔
16 سالہ لڑکی نے کہا کہ وہ اکیلی نہیں بلکہ کلاس میں موجود سبھی مسلم طلبہ صدمے میں ہیں، "وہ سب بے آواز تھے جیسے میں ہوں”۔
عمار کے مطابق اس کی کلاس میں کئی اور مسلم طلبہ بھی تھے۔ اگرچہ اس نے کارٹون کو چلانے پر اعتراض کیا، اور ہم کلاس سے جانا چاہتے تھے لیکن ٹیچر نے کلاس روم چھوڑنے کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔
سارہ عمار نے کہا کہ” ٹیچر اس بارے میں بات کرتی رہیں کہ کس طرح مسلمانوں نے ایک بے گناہ شخص کو مارا جس نے وہ کارٹون بنایا تھا‘‘۔ عمار نے کہا کہ وہ نہیں چاہتی کہ دوسرے مسلم طلبہ بھی اسی طرح کی توہین کا سامنا کریں، یہ ایک بہت تکلیف دہ بات ہے۔
سارہ عمار کے والد محمد عمار نے کہا کہ جب وہ سارہ کو لینے اسکول گئے تو سارہ رونے لگی اور سارا واقعہ بیان کیا۔ محمد عمار نے ٹیچر کو معطل کرنے اور اسکول سے باضابطہ معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے نبی ﷺ اور اسلام کے خلاف گستاخی کو ہرگز برداشت نہیں کر سکتے۔
اسلامو فوبک واقعہ کے فوراً بعد محمد عمار نے اسکول کے حکام سے بات کی اور حکومت کے متعلقہ محکموں کو خط لکھا۔
حکام نے واقعے کے بارے میں سارہ کے والد محمد عمار سے رابطہ کیا اور اہل خانہ کو ایک رکن پارلیمنٹ کی جانب سے ای میل موصول ہوئی۔
فرانسیسی ہفت روزہ میگزین چارلی ہیبڈو نے 2015 میں پیغمبر اسلام ﷺ کا گستاخانہ کارٹون شائع کیا تھا جس پر پوری مسلم دنیا میں شدید احتجاج ہوا تھا۔