اللہ سبحانہ نے سب سے پہلے سارے انسانوں کے جدسیدنا آدم علیہ السلام اورجدہ سیدتنا حوا علیہا السلام کی تخلیق فرمائی اوران دونوں سے بہت سے مرداورعورتیں دنیا میں پھیلائیںجن سے انسانی بستیاں آبادہوئیں،اس لئے سارے انسان ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں۔یہ رشتہ پیارومحبت انس والفت کی اولین بنیاد ہے،اس میں انسانی مساوات کا ایک بہت بڑادرس اورپیغام ہے، نسل انسانی کے فروغ اوراسکے تحفظ کیلئے اولاد آدم میں ایک اجنبی مردوعورت کے درمیان نکاح کا نظام بنایا گیا ہے۔
اس رشتہ کی اسلام میں بہت اہمیت ہے، چونکہ اسی رشتہ سے خاندان تشکیل پاتاہے اوراسی رشتے سے کئی اور رشتے قائم ہوتے ہیں جو پھیلتے پھیلتے ایک بڑے خاندانی نظام میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔انسان ”انس“سے ماخوذہے اس لئے وہ اپنے ہم جنسوں سے دوررہ کرزندگی نہیں گزارسکتا،چین وسکون،راحت وسکینت کیلئے رفاقت کی بڑی ضرورت ہے ، رفاقت کی نعمت ازدواج اورخاندان کی وجہ نصیب ہوتی ہے، خاندان کا دائرہ مختصربھی ہوتا ہے اوردراز بھی، مردوعورت نکاح کے ذریعہ جب ایک دوسرے کے رفیق بنتے ہیں تو ان کا خاندان آگے بڑھتاہے،خاندان کے مختصردائرہ میں کہیں شوہراوربیوی اوران کی اولاداورکہیں ان کے ساتھ انکے ماں باپ بھی خاندان کا حصہ بنتے ہیں۔
اور اسکاوسیع تردائرہ اگردیکھا جائے تو اس میں اورکئی ایک رشتے ددھیال ،ننھیال اورسسرال کے شامل ہوجاتے ہیں،اب سوال یہ ہے کہ خاندانی نظام مشترکہ ہویا جداگانہ،ظاہر ہے
اسلامی نظام حیات میں دونوں کی گنجائش ہے،جداگانہ نظام زندگی اختیارکرنا ہویا مشترکہ نظام زندگی۔ ہر دوصورت میں اسلام نے اس کے احکام وآداب سکھائے ہیں۔مشترکہ نظام زندگی کے بہت فوائد ہیں لیکن اس میں صبروتحمل ،قوت برداشت ، عفوودرگزر، چشم پوشی اورسیر چشمی کی ضرورت ہوتی ہے،تربیت کے بغیر یہ اوصاف انسانوں میں بہت کم پیداہوتے ہیں،ان اوصاف کے ساتھ پیارومحبت ،اخوت والفت ،بڑوں کی تعظیم،چھوٹوں سے شفقت اس میں مزیدچارچاندلگاتے ہیں۔حدیث پاک میں واردہے” جودوسروں کے ساتھ اختلاط رکھتاہے اوران سے پہنچنے والے آزارپرصبرکرتاہے یہ اس مسلمان سے بدرجہا بہتر ہے جونہ اوروں سے میل جول رکھتاہے نہ ان سے پہنچنے والی ایذاپر صبرکرتاہے“ (ترمذی:۲۵۰۷)
اسلام میں اجتماعیت کی بڑی اہمیت ہے اورمشترکہ خاندانی نظام سے اجتماعیت کی شان جھلکتی ہے، کثرت اختلاط اورعدم تربیت کی بنا نیک نفسی،اثیاروقربانی مزاجوں میں ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ مشترکہ خاندانی نظام میں کئی ایک خوبیوں اوراچھائیوں کے باوجودکچھ دشواریاں اورپیچیدگیاں درپیش ہوجاتی ہیں جومعاشرتی زندگی کی خوشگواری کو ختم کردیتی ہیں، اس وجہ سے اکثر مشترکہ خاندانی نظام اختلاف وانتشارکا شکارہوجاتاہے،مشترکہ خاندانی نظام میں مردوں سے زیادہ مختلف مزاج وخیال کی خواتین کے اجتماع کی وجہ اکثرمسائل پیداہوتے ہیں جن کی اصلاح مردوں کے بس کا روگ نہیں رہتی،اس تناظر میں جداگانہ خاندانی نظام جومختصرکنبہ پر مشتمل ہو آپسی اختلاف ونزاعات سے بڑی حد تک محفوظ رہتاہے۔
خوشگوار اور کامیاب زندگی کی راہ میں اختلاف وانتشار، رشتوں کا آپسی تصادم کئی ایک موانعات کھڑی کردیتا ہے۔آپسی محبت نفرت میں، دلوں کی قربت دوری میں تبدیل ہوجاتی ہے،جسموں کا ایسا قرب جو قلوب کی دوری اور بعد کے ساتھ ہو اس سے کہیں زیادہ بہترہے کہ جسمانی دوری اورقلوب کے قرب ومحبت کے ساتھ ہو،ظاہر ہے جداگانہ خاندانی نظام میں اس کا پایا جانا مشترکہ خاندانی نظام کے بالمقابل زیادہ ممکن ہے۔
ملت کے آپسی اختلاف کی طرح خاندانی اختلاف بھی خاندان کوبکھیرنے کا سبب بنتاہے،اس لئے حدیث پاک میں واردہے”کیا میں تم کو ایک ایسے افضل اوربہترعمل سے باخبرنہ کردوں جو روزہ، نماز اورصدقہ سے کہیں زیادہ بہترہے،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کیوں نہیں ضرور آگاہ فرمادیجئے،آپ ﷺ نے فرمایا :کہ وہ آپسی مصالحت اوراپنے درمیان احوال کی درستگی کے ساتھ زندگی گزارناہے، اس کے برعکس آپسی اختلاف وانتشارمونڈنے والا ہے“ (بخاری:۶۰۷۷)
اس کے علاوہ مشترکہ خاندانی نظام کی ایک بہت بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں اکثر ہر ایک کے مالی معاملات اور مالکانہ حقوق جدا نہیں رہتے جس کی وجہ والدین کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد اورحقوق کے ساتھ میراث کی تقسیم میں اکثرو بیشتر وارثین کے درمیان اختلاف کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوجاتاہے، بسااوقات اختلاف اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی صورت دیکھنے کے روادار نہیں رہتے۔
سلام وکلام رشتہ داری اور آپسی رشتہ وتعلق جس کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے منقطع ہوجاتا ہے، جبکہ حدیث پاک میں اس بارے میں سخت وعید وارد ہے، ارشاد نبویﷺ ہے”کسی مسلمان کیلئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ تعلق توڑے رہے ،ان کی ملاقات ہوتو ایک ادھر اور دوسرا ادھر منہ پھیرکر چلا جائے“ (مسلم شریف)