سلسلہ نسب و ولادت:۔
قطب الاقطاب فرد الاحباب استاذ شیوخ ، عالمِ اسلام و المسلمین حضرت محی الدین ابو محمد عبدالقادر الحسنی و الحسینی رضی اللہ عنہ، نجیب الطرفین ہیں۔ والدہ ماجدہ کی طرف سے حسینی اور والد ماجد کی جانب سے حسنی تھے۔ یہ شرافت و بزرگی بہت ہی کم بانصیب لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔
والد ماجد کا نام سید ابو صالح اور والدہ ماجدہ کا اسم گرامی ام الخیر فاطمہ بنت ابو عبداللہ صومعی الحسینی تھا۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہما۔ آپ ایران کے مشہور قصبہ جیل میں یکم رمضان المبارک ھ کو پیدا ہوئے۔
آپ مادر زاد ولی تھے:۔
یہ بات نہایت ہی مشہور و معروف ہے کہ سیدنا حضرت غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ، ایام رضاعت میں ماہِ رمضان المبارک میں دن کے وقت اپنی والدہ ماجدہ کا دودھ نہیں پیا کرتے تھے۔ یہ بات لوگوں میں پھیل گئی کہ فلاں شریف گھرانے میں ایک ایسا بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان شریف میں دن کے وقت ماں کا دودھ نہیں پیتا۔ اور روزہ سے رہتا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ آپ مادر زاد ولی تھے۔ایک دفعہ لوگوں نے پوچھا کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ آپ ولی اللہ ہیں؟ فرمایا میں دس برس کا تھا کہ گھر سے مدرسے جاتے وقت دیکھا کہ فرشتے میرے ساتھ چل رہے ہیں۔ پھر مدرسہ میں پہنچنے کے بعد وہ فرشتے دوسرے بچوں سے کہتے کہ ”ولی اللہ ” کیلئے جگہ دو-
آپ کا حلیہ شریف:۔
آپ نحیف البدن ، میانہ قد، کشادہ سینہ لمبی چوڑی داڑھی، گندمی رنگ، ابرو پیوستہ، بلند آواز تھے۔ آپ علم کامل اور اثر کامل کے حامل تھے۔
آپ کا علم و فضل:۔
سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ، علم ظاہری اور باطنی کے ایک متبحر عالم فاضل تھے۔ ایک دن آپ کی مجلس میں ایک قاری نے قرآن کریم کی ایک آیت تلاوت کی۔ آپ نے اس کی تفسیر بیان کرنی شروع کی۔ پہلے ایک تفسیر پھر دوسری، اور پھر تیسری یہاں تک کہ حاضرین کے علم کے مطابق اس آیک کی گیارہ تفاسیر بیان فرمائیں۔ یہاں تک کہ چالیس وجوہ بیان کیں ار ہر معنی اور تفسیر کی علیحدہ علیحدہ تفصیل سے سند اور دلیل اس طرح دی کہ حاضرین دم بخود رہ گئے۔
آپ کی ریاضت و عبادت:۔
سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ، کا طریقہءسلوب بے انتہائی مشکل اور بے نظیر تھا۔ آپ کے کسی ہمعصر شیخ میں اتنی مجال نہ تھی کہ آپ جیسی ریاضت و مجاہدہ میں آپ کی ہمسری کرسکے۔ آپ کا قاعدہ تھا کہ اپنے ہر عضو کو اس کی طاقت کے موافق عبادت میں سپرد کردیا کرتے تھے۔ اور قوتِ قلب کے موافق مجایءاقداءمیں روح و نفس کا ظاہراً و باطناً ذکر کیا کرتے تھے۔ غائب و حاضر دونوں حالتوں میں نفس کی صفات کو علیحدہ کرکے نفع و نقصان اور دور ونزدیک کا فرق مٹادیا کرتے۔ کتاب و سنت کی پیروی میں مطابقت ایسی تھی کہ آپ ہر حالت میں ہر وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے اور حضور قلب کے ساتھ توحید الٰہی میں مشغول رہتے۔
آپ کے اخلاقِ کریمہ:۔
سیدنا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ، نہایت پاکیزہ اور خوش اخلاق تھے۔ آپ اپنی طاہری شان و شوکت اور وسیع علم کے بوجود کمزوروں اور ضعیفوں میں بیٹھتے۔ فقیروں سے عاجزی کے ساتھ پیش آتے۔ بڑوں کی عزت کرے اور چھوٹوں پر شفقت و مہربانی فرماتے۔ سلام کرنے میں پہل کرتے اور مہمانوں اور طالب علموں کی مجلسوں میں نشست کرتے اور ان کی لغزشوں سے درگزر کرتے جو کوئی آپ کے سامنے کتنی ہی جھوتی قسم کیوں نہ کھاتا آپ اس کا یقین کرلیتے اور اپنے علم و کشف کو اس پر ظاہر نہ فرماتے۔ اپنے مہمانوں اور ہم نشستوں کے ساتھ دوسروں کی بہ نسبت بہت خوش خلقی اور کشادہ روئی سے پیش آتے۔
آپ کے تعلیم کردہ نوافل:۔
آپ رضی اللہ عنہ، فرماتے ہیں کہ جو کسی تکلیف میںمجھ سے امداد چاہے یا مجھے آواز دے اور پکارے اس کی تکلیف دور کی جائے گی ، جو کوئی میرے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ سے مانگے اس کی ضرورت پوری کی جائے گی۔ اور جو کوئی دو رکعت نماز اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورہءفاتحہ کے بعد گیارہ مرتبہ سورہءاخلاص پڑھے اور پھر سرور عالم ﷺ پر درود شریف پڑھے اس طرح دونوں رکعتیں ختم کرکے سلام پھیرنے کے بعد درود شریف پڑھے۔ اور عراق کی جانب گیارہ قدم چلے اور میرا نام لے کر اپنی مراد اللہ تعالیٰ سے مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کی مراد اپنے فضل و کرم سے پوری کرے گا۔
حضرت غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ کا وعظ و نصیحت:۔
آپ کی مجلس وعظ میں چار سو اشخاص قلم دوات لئے آپ کی نصیحتیں قلمبند کرتے رہتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ ابتدائی زمانہ میں سرورِ عالم ا اور سیدنا حضرت مولا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کو میں نے خواب میں دیکھا جنہوں نے مجھے وعظ کرنے کا حکم دیا اور میرے منہ میں اپنا لعاب دہن ٹپکایا اور مجھ پر ابواب سخن کھول دیے۔
مواعظ کا اثر:۔
آپ کا وعظ بڑا پر تاثیر ہوتا تھا۔ حاضرین مجلس مضطرب اور بے چین ہوجاتے اور ان پر وجد و حال کی کیفیت طاری ہو جاتی۔ کوئی گریہ و فریاد کرتا۔ کوئی اپنے کپڑے پھاڑ کر جنگل کی طرف بھاگ جاتا۔ کوئی بے ہوش ہو کر جان دے دیتا۔ آپ کی مجلس وعظ سے اکثر لوگوں کے جنازے نکلتے۔ جس کا سبب یہ تھا کہ وہ آپ کے ذوق و شوق، ہیبت و تصرف، عظمت و جلال کی تاب نہ لاسکتے اور دم توڑ دیتے تھے۔ پانچ سو سے زیادہ یہودی اور عیسائی لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ اور ایک لاکھ سے زیادہ ڈاکوؤں اور بدمعاشوں نے آپ کے ہاتھ پر توبہ کرکے بدکرداریوں سے باز آئے۔ اس کے علاوہ عام مخلوق کی فیض یابی کی تعداد بے انتہا اور بے شمار ہے۔
آپ کا وصال مبارک:۔
آپ نے نوے (90) سال کی عمر میں بتاریخ ۱۱ربیع الآخر ۱۶۵ھ مطابق 1128ءمیں داعی اجل کو لبیک کہا۔ نماز جنازہ میں بے شمار لوگ حاضر ہوئے۔ کثرتِ ہجوم کے باعث رات کے وقت آپ کے مدرسہ میں سائبان کے نیچے آپ کا جسم اقدس سپردِ خاک کیا گیا۔ بغداد شریف میں آپ کا مزار مبارک مرجع خلائق ہے۔