مفتی ثناء الہدی قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
امارت شرعیہ کی جانب سے امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے حکم وہدایت پر نائب امیر شریعت مولانا محمد شمشاد رحمانی قاسمی نے 6؍ نومبر، 2022ء کو المعہد العالی ہال امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ میں ’’مدارس اسلامیہ کنونشن ‘ کے عنوان سے ایک اجلاس طلب کیا ہے، جس میں بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ ،مغربی بنگال کے تقریبا پانچ سو مدارس کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے، اجلاس میں مدارس کو در پیش موجودہ خطرات ، تعلیم وتربیت کے مسائل ، انتظام وانصرام کو مزید چاق وچوبند اور عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے جیسے موضوعات زیر بحث آئیں گے ۔ اجتماعی غور وفکر سے کوئی حل سامنے آئے گا۔ انشاء اللہ
واقعہ یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ اس وقت بڑے نازک دور سے گذر رہے ہیں، اس کو نیست ونابود کرنے کی جو مہم آسام کی بی جے پی حکومت نے چلائی تھی ، اسے یوپی کی یوگی حکومت نے بڑے پیمانے پر نافذ کرنے کا ارادہ کر لیا ہے، عجلت میں وہاں کے مدارس کا سروے کرایا گیا اور سات ہزار پانچ سو مدارس کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا، غیر قانونی کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اب ان کے خلاف کارروائی ہوگی، حالاں کہ ان میں بیش تر کا معاملہ یہ ہے کہ وہ رجسٹرڈ سرکار کے یہاں نہیں ہیں، رجسٹرڈ نہ ہونے کا مطلب غیر قانونی ہونا نہیں ہوتا، یہ مدارس دستور میں اقلیتوں کو دیے گیے حقوق کے مطابق چلائے جا رہے ہیں، پھر وہ غیر قانونی کس طرح ہو سکتے ہیں۔
مدارس اسلامیہ نے ہر دور میں تعلیم کی ترویج واشاعت میں نمایاں اور قابل قدر خدمات انجام دی ہیں ، اس نے لادینی بے راہ روی، بے حیائی کے خلاف اپنی تربیت کے ذریعہ مؤثر مہم چلائی اور ایسے افراد تیار کئے ، جن میں صالحیت بھی تھی اور صلاحیت بھی ، بہارہی نہیں، ملک، بلکہ بیرون ملک تک مدارس اسلامیہ کے فارغین کی خدمات کے نقوش ثبت ہیں اور ان کی جدو جہد کے مناظر ومظاہر ، ہر علاقے میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
تعلیم کو تجارت بنانے کے اس دور میں بھی یہ مدارس ، غریب ونادار ، بے کس وبے سہارا بچوں کے لئے تعلیم کا سب سے بڑا اور واحد ذریعہ ہیں، تعلیمی اداروں میں ہوسٹل اور ان کے خورد ونوش کا تصور بھی مدارس اسلامیہ ہی کادیا ہوا ہے، جس کو جزوی طور پر’’ مڈ ڈے میل ‘‘ کے طور پر حکومت نے اسکولوں میں نافذ کیا اور اسے اسکولی تعلیم کو پر کشش بنانے کا ایک ذریعہ قرار دیا گیا ۔
مدارس اسلامیہ میں بڑی تعداد تو ایسے مدارس کی ہے جو آج بھی سود وزیاں سے بے نیاز ملت کے چند وں سے اس کام کابیڑا اٹھائے ہوئے ہیں، اورملت کے بچوں کو تعلیم سے آشنا کرنے کے کام میں لگے ہوئے ہیں، ان کی نظر مالی منفعت پر نہیں ، تعلیم کو عام کرنے پر ہے ،وہ سرکاری امداد کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے ، بلکہ بہت سارے اسے مدارس کے لئے مضر سمجھتے ہیں، بوریہ نشیں ان علماء نے روکھی سوکھی کھا کر اور کھلا کر ،چٹائی اور بوریوں پر سوکر اور بچوں کو سلا کرمسلمانوں کو علم سے آراستہ کر دیا ۔اور اجرت کے حصول کے بجائے اجر اخروی کی توقع پر زندگی گذاردی۔
اس مہم کا ایک حصہ ایسے مدارس بھی ہیں جو بہار کے تناظر میں پہلے مدرسہ اسلامیہ
شمس الہدیٰ پٹنہ ، پھربہار مدرسہ اکزامینیشن بورڈ اور اب بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے ملحق ہیں، اپنے ایک سو دو سالہ دور میں ان مدارس کے ذریعہ بھی بڑی تعداد میں علماء اور دانشور پیدا ہوئے ، امیر شریعت خامس حضرت مولانا عبد الرحمنؒ نے بھی وہیں تعلیم پائی تھی،مولانا سید محمد شمس الحق سابق شیخ الحدیث جامعہ رحمانی مونگیر کی متوسطات تک کی تعلیم ایسے ہی مدرسہ میں ہوئی تھی، اس طرح کے بہت سارے نام لئے جا سکتے ہیں۔
مدارس اسلامیہ کی خدمات دونوں سطح پر بڑے پیمانے پر جاری ہیں، اور اس کے اثرات بھی مختلف اندازکے سامنے آ رہے ہیں ، میرا احساس یہ ہے کہ تعلیمی اداروں کی ترقی اور تربیت کے خوب سے خوب تر بنانے کی کوئی آخری منزل نہیں ہوتی، یہاں تو بڑھتا جا، اور چڑھتا جا، کا موقع ہوتا ہے ، اسی لئے ہر دور میں اکابر علماء نے اصلاح تعلیم وتربیت اور اصلاح نصاب کی تحریک چھیڑی اور اس نظام کو جمود سے بچانے کی قابل قدر اور بیش قیمت خدمات انجام دی ہیں۔
اب امارت شرعیہ نے یہ تحریک چھیڑی ہے اور اسے بہار کے دور دراز مدارس تک پہونچا دینے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے ، پھر دورے وغیرہ کی ترتیب بنے گی اور کار وائی آگے بڑھے گی ، ہمیں اس تحریک سے نیک توقعات رکھنی چاہئے اور ہر ممکن مدد کرنی چاہئے اور ہر سطح پر اس مہم کو کامیاب کرنے کی عملی جد وجہد میں ہاتھ بٹانا چاہئے ۔
حدیث میں’’ تھوڑا عمل اور مسلسل عمل ‘‘کی اہمیت بتائی گئی ہے ، ہمیں اس اہمیت کو سمجھنا چاہئے اور مسلسل اس کام کو جاری رکھنا چاہئے ، ہمارے کام کا مزاج سوڈا کے ابال جیسا بن گیا ہے ، جوش کے ساتھ ایک رات میں مسجد بھی بنادیتے ہیں اور تالاب بھی کھود دیتے ہیں، لیکن بقول مولانا ابو الکلام آزاد ایک ایک اینٹ جوڑ کر مسلسل اس کام کو نہیں کر پاتے اور پھر ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جاتے ہیں کہ ’’ مرد ے از غیب بروں آید وکارے کند ‘‘ ہمیں اپنے اس طرز عمل کو بدلنا ہو گا ، اور اس کٹھن کام کو مسلسل جاری رکھنے کے لئے طویل منصوبہ بندی کرنی ہو گی۔