24؍ فروری 2022ء کو روس نے جب یوکرین پر حملہ کیا تو اسے ہی نہیں پوری دنیا کو یقین تھا کہ یوکرین ایک ہفتہ سے زیادہ روس کی افواج اور عسکری طاقت کا سامنا نہیں کر سکے گا، روس کے صدر پوتن بھی اسی غلط فہمی میں مبتلا تھے، ان کا اندازہ تھا کہ یوکرین ان کے تابڑ توڑ حملوں اور جدید اسلحوں کے استعمال کے بعد یا تو وہ نیست ونابود ہوجائے گا یا ہمارے قبضہ میں پورا یوکرین آجائے گا، چاہے وہ کھنڈر کی شکل ہی میں کیوں نہ ہو، لیکن ہوا اس کے بر عکس، روس یوکرین جنگ کے آٹھ ماہ پورے ہو گیے ہیں اور اب بھی یہ کہنا مشکل ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
روسی صدر پوتین کے جنگ کے اس فیصلے سے وہاں کی عوام نا خوش ہے، انتقال مکانی کر رہی ہے بغاوت کی آوازیں اٹھنے لگی ہیں، روس کی افواج بھی نفسیاتی طور پر کمزورہے ، کیوں کہ وہ اسے بلا وجہ کی جنگ تصور کرتے ہیں، اس نفسیاتی کمزوری کی وجہ سے افواج میں مقابلہ کی طاقت کم ہوئی ہے، اور بالآخر روسی صدر نے جنگ کی کمان دوسرے کے حوالہ کر دیا ہے، پوتن نے تین لاکھ محفوظ تربیت یافتہ افراد کو بھی لام بندی اور یتاری کے لیے کیا تو عوام کے ساتھ تربیت یافتہ افراد نے بھی اس کی بھر پور مخالفت کی۔
صدر پوتن کو اس کی وجہ سے پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، اب بیلاروس کے بھی جنگ میں شامل ہوجانے سے روس کو کچھ تقویت ملی ہے، اس جنگ نے روس کی معیشت کو سخت نقصان پہونچایا ہے ، معاشی بد حالی کی وجہ سے عوام نقل مکانی پر مجبور ہیں اور ان ملکوں کی سرحدوں پر لمبی قطاریں دیکھی جا رہی ہیں، جہاں روس کے لوگ بغیر ویزا کے داخل ہو سکتے ہیں، جارجیا ان ملکوں میں سے ایک ہے ۔
واقعہ یہ ہے کہ روس کی فوجی طاقت کے مقابلے یوکرین کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، روس کی فوج کی افرادی قوت سات لاکھ اکہتر ہزار (771000)ہے، جب کہ یوکرین کے پاس فوج کی تعداد صرف دو لاکھ ہے، بحری بیڑہ روس کے پاس بیس ہزار پچاس ہے، جبکہ یوکرین کے پاس صرف دو ہزار بحری جہاز ہے، روس کے پاس توپ خانے چودہ ہزار پانچ سو ستناون اور یوکرین کے پاس تین ہزار نو سو تہتر، روس کے پاس لڑا کو جہاں چار ہزار چار سو اکتالیس ہیں، جب کہ یوکرین کے پاس صرف چار سو پچیس ہے۔
رقبہ اور آبادی کے اعتبار سے بھی یوکرین اور روس کا کوئی مقابلہ نہیں ہے ، روس کا رقبہ یوکرین سے اٹھائیس گنا زیادہ ہے، یہ ایک کڑوڑ ستر لاکھ مربع کیلو میٹر میں پھیلا ہوا ہے، جب کہ یوکرین کے حصہ میں صرف چھ لاکھ تین ہزار مربع کیلو میٹر اراضی ہے، روس کی آبادی چودہ کروڑ پانچ لاکھ ہے ، یوکرین کی آبادی صرف چار کروڑ ایک لاکھ ہے، ڈی جی پی کی بات کریں تو روس کے پاس جنگ کے دوران گیارہ فی صد کم ہونے کے با وجود پینتالیس سو ارب ڈالر ہے، یوکریں کی ڈی جی پی پانچ سو اٹھاسی ارب ڈالر ہے۔
پھر روس پر یوکرین کیوں بھاری پڑ رہا ہے، اس کی وجہ وہاں کی عوام کی ملک کے تئیں وفاداری اور صدر کا بار بار حوصلہ دلانا ہے، پوتین احکام صادر کرتے ہیں، مارشل لا لگانے کی بات کہتے ہیں اور یوکرین کے صدر فوج اور عوام دونوں کا حوصلہ بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں، اس طرح دیکھا جائے تو یوکرین کی فوج اپنے ملک کے لیے لڑ رہی ہے اور روسی فوج پوتین کے حکم کی تعمیل میں محاذ پر ہے۔
پوتین کو یہ غلط فہمی تھی کہ امریکہ، افغانستان اور عراق میں اپنی ہار کے بعد اس جنگ میں یوکرین کے ساتھ اخلاقی طور پر معاون نہیں ہوگا، اور موجودہ صدر ڈونالنڈ ٹرمپ کی امریکہ فرسٹ والی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر دخل اندازی نہیں کرے گا، ناٹو کے ممالک مدد کے لیے آگے نہیں آئیں گے، روسی صدر کی غلط فہمیوں کی وجہ سے یہ لڑائی شروع ہوئی او رابھی اس کے ختم ہونے کے آثار نظر نہیں آتے، فتح جس کی بھی ہو یوکرین کے افواج کی جرأت کی داستان تاریخ میں صدیوں محفوظ رہے گی۔