آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں کہا ہے کہ اتراکھنڈ اور اس کے بعد گجرات کی حکومت نے جو یکساں سول کوڈ کا شوشہ چھوڑا ہے، وہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ ملک کی تمام اقلیتوں اور اکثر قبائلی گروہوں کے لئے ناقابل قبول ہے۔
انہوں نے کہا کہ دستور کے تحت بنیادی حقوق میں اپنے اپنے مذہب کے مطابق عقیدہ رکھنا، عمل کرنا اور مذہب کی تبلیغ شامل ہے، اس لئے مختلف گروہوں کے پرسنل لا کو قانونی تحفظ حاصل ہے اور یہ بات بھی محتاج اظہار نہیں کہ بنیادی حقوق ہی دستور کی اصل روح ہے۔ ملک کے معماروں اور دستور بنانے والوں نے خوب سوچ سمجھ کر اور ہندوستان کے کثیر مذہبی اور کثیر تہذیبی ڈھانچہ کو سامنے رکھ کر اس دفعہ کو شامل کیا تھا، یہ ملک کی سالمیت اور قومی یکجہتی کی بنیاد ہے، کیوں کہ سماجی اور خاندانی قوانین سے مختلف گروہوں کی شناخت متعلق ہوتی ہے، اگر لوگوں کو اُن کی شناخت سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ بات گوارہ نہیں ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ انگریزوں کے پہلے سے مختلف گروہ اپنے اپنے پرسنل لا کے ساتھ اس ملک میں رہتے آئے ہیں، انگریزوں نے بھی اسی کو برقرار رکھا اور آزادی کے بعد بھی گزشتہ 75 سال سے اسی انداز پر ملک کا نظام چل رہا ہے، مگر اس سے کوئی دشواری پیش نہیں آئی، اگر ملک کی عوام اپنے مذہبی قوانین کے بجائے کامن سول کوڈ کو پسند کرتے تو اسپیشل میرج ایکٹ ملک کا مقبول ترین پرسنل لا ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
مولانا نے کہا کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مختلف قبائل سے خود سرکار نے معاہدہ کیا ہے کہ ان کے رسوم ورواجات کو برقرار رکھا جائے گا اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی؛ اس لئے اگر لوگوں کو اُن کے مذہبی اور قومی تشخص سے محروم کر دیا جائے تو اس سے اتحاد اور بھائی چارہ متأثر ہوگا، غرض کہ کامن سول کوڈ دستور کے بھی خلاف ہے، اس سے کوئی فائدہ بھی نہیں ہے اور اُلٹے نقصان کا اندیشہ ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اتراکھنڈ میں بھی وہاں کی مذہبی تنظیموں اور شہریوں کے واسطہ سے حکومت تک یہ بات پہنچا چکی ہے کہ اقلیتوں کے لئے یہ بات ناقابل قبول ہے اور وہ قومی سطح پر بھی دوسری اقلیتوں کے ساتھ مل کر پوری قوت کے ساتھ اس کی مخالفت کرے گی۔
بورڈ اس سلسلہ میں سکھ، کرسچن، بدھسٹ اور دوسری مذہبی اور تہذیبی اکائیوں کے ساتھ رابطہ میں ہے اور سچائی یہ ہے کہ حکومتیں الیکشن کے موقع پر اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے اس طرح کے موضوعات اٹھاتی ہیں، اور نفرت کے ماحول کو فروغ دیتی ہیں؛ اس لئے حکومت سے اپیل ہے کہ وہ ملک کے حقیقی مسائل پر توجہ دینے کی بجائے ایسے بے فائدہ کاموں میں اپنا وقت ضائع نہ کرے اور اقلیتوں کو جو بنیادی حقوق دئیے گئے ہیں، ان کا پاس ولحاظ رکھے۔