ریاست اترپردیش میں حکومت کی جانب سے تمام مدارس اسلامیہ کا 12 نکات پر سروے کیا گیا تھا کہ وہ حکومت کی جانب سے منظور شدہ ہیں یا نہیں۔ اس سروے پر مختلف سیاسی و مذہبی رہنماؤں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا تھا۔
سہارنپور: ایک سرکاری سروے کے مطابق ملک کا مشہور مدرسہ دارالعلوم دیوبند اور سہارنپور ضلع کے دیگر 305 مدارس اتر پردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے تسلیم شدہ نہیں ہیں۔ یہ ایسے مدارس ہیں جو بورڈ کے ذریعہ تسلیم شدہ نہیں ہیں اور انہیں سرکاری اسکیموں جیسے اسکالرشپ، اساتذہ کی تنخواہ وغیرہ کا فائدہ نہیں ملتا ہے۔
ضلع اقلیتی بہبود افسر بھرت لال گوڑ نے ہفتہ کو پی ٹی آئی کو بتایا کہ سہارنپور میں کل 754 مدارس رجسٹرڈ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ضلع میں غیر تسلیم شدہ مدارس کی تعداد 306 ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ریاست میں مدارس سے متعلق سروے کے ایک حصے کے طور پر حکومت کے ساتھ معلومات کا اشتراک کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دارالعلوم دیوبند بھی مدرسہ بورڈ نے تسلیم شدہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے 12 نکات طے کیے تھے، جن کی بنیاد پر مدارس کا سروے کیا گیا تھا۔ ایک بیان میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کہا کہ ادارے نے کبھی کسی حکومت سے کسی قسم کی امداد یا گرانٹ نہیں لی۔
مفتی ابو القاسم نعمانی نے کہا کہ دار العلوم دیوبند مدرسہ بورڈ کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہے لیکن یہ بھارتی آئین کے مطابق تعلیمی سرگرمیاں انجام دیتا ہے۔ نعمانی نے کہا کہ دارالعلوم کی ‘شوریٰ سوسائٹی’ سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہے اور یہ مدرسہ آئین کے تحت مذہبی آزادی کے حق کے مطابق کام کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دارالعلوم دیوبند 150 سال سے زیادہ عرصے سے تعلیمی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے اور ملک کی خدمت کر رہا ہے، لیکن اس نے کبھی کسی حکومت سے کسی قسم کی امداد یا گرانٹ نہیں لی ہے۔
واضح رہے کہ اتر پردیش میں مدارس کو جدید تعلیمی نظام سے جوڑنے کے لیے وسائل کی دستیابی کے لیے تمام اضلاع میں جاری جانچ کا کام تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔ تحقیقات کے دوران تقریباً 7500 غیر تسلیم شدہ مدارس کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔
مدرسہ ایجوکیشن کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر افتخار احمد جاوید نے کہا کہ پورے صوبہ میں سروے کے دوران تقریباً 7500 غیر تسلیم شدہ مدارس کی نشاندہی کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 15 نومبر تک سروے کی مکمل رپورٹ ضلع مجسٹریٹ کے ذریعے تمام اضلاع سے سرکاری سطح پر آجائے گی۔
واضح رہے کہ ریاست اترپردیش میں حکومت کی جانب سے تمام مدارس اسلامیہ کا 12 نکات پر سروے کیا گیا تھا کہ وہ حکومت کی جانب سے منظور شدہ ہیں یا نہیں۔ اس سروے پر مختلف سیاسی و مذہبی رہنماؤں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا تھا۔ تاہم حکومت نے دعوی کیا تھا کہ وہ مدارس کا سروے اس لئے کروارہی ہے کہ ان مدارس کو جدید طرز پر اپ گریڈ کیا جائے۔