آج یعنی 23 اکتوبر 2022 کو جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے ریسرچ طالب علم اور سماجی کارکن شرجیل امام کی قید کے 1000 دن پورے ہوگئے ہیں۔
جنوری 2020 میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) کے خلاف تاریخی تحریک کے دوران شرجیل امام پر سی اے اے اور این آر سی کے خلاف تقاریر کرنے پر پانچ ریاستوں کی جانب سے اشتعال انگیزی اور نفرت پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا جس کے بعد ان کے خلاف غداری اور یو اے پی اے کے تحت ان پر مقدمہ درج کیا گیا۔ انٹرنیٹ پر زبردست نفرت انگیز مہم اور حکومتوں کے نوٹس کے بعد پی ایچ ڈی اسکالر بہار کے طالب علم نے 28 جنوری 2020 کو دہلی پولیس کے سامنے خودسپردگی کی۔
تقاریر میں شرجیل امام نے سی اے اے کے خلاف احتجاج کے طریقہ کار کے طور پر سڑک بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ دہلی، اتر پردیش، آسام، منی پور اور اروناچل پردیش میں پولیس نے تقریر کے خلاف ایف آئی آر درج کیں اور ان کی چارج شیٹ کے مطابق شرجیل امام کی تقریر علیحدگی پسند اور اشتعال انگیز تھی۔
پولیس نے الزام لگایا کہ شرجیل امام کی تقاریر سے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں مظاہرے ہوئے اور 2020 کے شمال مشرقی دہلی کے قتل عام کے دنوں میں تناؤ کو ہوا دی گئی۔ دہلی پولیس نے شرجیل امام کے خلاف دہلی قتل عام کی سازش کیس اور جامعہ احتجاج کیس میں بھی مقدمہ درج کیا ہے۔
34 سالہ شرجیل امام کو شاہین باغ احتجاج کا علمبردار مانا جاتا ہے، جو نئی دہلی میں 100 دن طویل پرامن اور تاریخی احتجاجی مظاہرہ تھا جس کا انعقاد دسمبر میں حکومت کی جانب سے 2019 میں CAA کی منظوری کے جواب میں کیا گیا تھا۔
اگرچہ امام کو یو اے پی اے اور بغاوت کے کچھ مقدمات میں ضمانت مل گئی ہے، لیکن وہ حراست میں ہی رہیں گے کیونکہ ان کے خلاف زیر التوا دیگر مقدمات میں انہیں ابھی ضمانت نہیں ملی ہے۔
پچھلے مہینے 10 ستمبر کو شرجیل امام نے تہاڑ جیل سے "ایک کوٹھری میں عالمی منظر: ایک مسلم سیاسی قیدی کی بصیرت” کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا اور اسے اپنے وکیل کے ذریعے بھیجا تھا۔