وہ میری چاہت ہی نہیں میرا عشق تھی۔ دیوانہ وار عشق۔ اگرچہ کہ اوروں کے دل میں بھی اس کی چاہت تھی لیکن بس ایک وقت گزاری کے شوق کی حد تک۔ میرا یقینِ محکم تھا کہ میں اس کو حاصل کرکے رہوں گا اس لئے سبھی گواہ ہیں کہ میں نے زندگی کے پچاس سال اسے دے دیئے۔ زندگی کا سکون اور کاروبار اس کے لئے تباہ کردیا۔شہر شہر اور گاؤں دیہات اس کے پیچھے پھرتا رہا۔ اب جبکہ وہ مرچکی ہے تو پولیس مجھے ہراساں کررہی ہے۔
وہ دیوانی تھی، ہر ایک کا کھلونا بنتی رہی۔ اس کو استعمال کرنے کا صحیح فن سب سے زیادہ لیڈروں، ملاّؤں اور مرشدوں کے پاس تھا۔ یہ سب جانتے ہیں کہ وہ مرچکی ہے، لیکن یہ مجھے جھٹلا رہے ہیں جبکہ میرے پاس زندہ ثبوت ہیں۔ لیکن ان لوگوں نے اگر اس کے مرنے کا اعتراف کرلیا تو ان کے دھندے بند ہوجائیں گے۔پھر نہ لیڈروں کو ووٹ ملیں گے نہ مولویوں کو لفافے، نہ درگاہوں کے غلّے۔
اگرچہ کہ پچھلے پچیس تیس سال میں میں نے کئی بار وارننگ دی کہ اگر اس کا ساتھ نہیں دو گے تو کیا انجام ہوگا۔ ایک ایک پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی، لیکن کوئی وقت پر اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ کسی نے کہا کہ ہمیں اولیااللہ کی قبریں بچالیں گی تو کسی نے کہا کہ ہمیں ہماری جماعت بچالے گی۔ مرحومہ کو میں نے بہت طاقتور سمجھا تھا لیکن وہ بہت کمزور نکلی۔ اس کی ایک ہی خواہش تھی کہ لوگ قرآن کو تھام لیں، اسی سے سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔
لوگوں کے اس سلوک کی وجہ سے ہی کئی سال سے اس کو ٹی بی ہوچکا تھا۔ہر روز کا اخبار ایک نہ ایک ذلت، رسوائی، اور شکست کی خبر دے رہا تھا۔ کوئی خبر ایسی نہ تھی جس سے اسے ایک سانس مل جائے۔وہ اگرچہ کوما میں تھی لیکن جب بھی کوئی دھرم سنسد ہوتا، کسی مسجد پر یا حجاب پر حملہ ہوتا، وہ تڑپ کر اٹھتی کہ شائد اب اس قوم کی غیرت جاگ جائیگی، لوگ ضرور جاگتے لیکن صرف اتنا جیسے نیند میں کوئی مچھر کاٹ لے تو۔ یہ دیکھ کر پھر وہ کوما میں چلی جاتی۔
وہ جانتی تھی کہ لوگ نبیوں کے جعلی وارثوں کی انگلی پکڑ کر چلنے کے عادی ہوچکے ہیں، رفع یدین یا تین طلاق یا میلاد کا معاملہ ہو تو یہ محمد ﷺ کے وارث ہیں بلکہ ایسی سنتوں کے لئے تو وہ مسجدوں کو میدانِ جنگ بھی بناسکتے ہیں، لیکن بات جب حقوق، مساوات، اور انصاف کے لئے جہاد کرنے کی آئیگی تو یہ پتہ نہیں یہ کس نبی کے وارث بن جاتے ہیں۔ یہ دیکھ دیکھ کر تو وہ بہت پہلے مرچکی تھی، بس اس کی لاش باقی تھی۔
آپ ضرور جاننا چاہیں گے کہ آخر وہ کون تھی، وہ میری امید تھی۔ اپنی قوم کے جاگ جانے کی امید۔نشاۃ ثانیہ کی امید۔امید کے زندہ ہونے کی امید ویسی ہے جیسے ایک جھوٹے لیڈر کے ”اچھے دن آئیں گے“ والے فقرے کے سچ ہونے کی امید۔
انبیاء کے ان وارثین میں بہترین سنّی اور شیعہ، بہترین حنفی اور شافعی یا مقلد اور غیر مقلد تو ہوں گے لیکن ان میں دور دور تک حقیقی اسلام کا شعور نہیں ہوگا۔حافظ لاکھوں پیدا ہوتے رہیں گے لیکن سنسکرت کے بغیر سمجھے اشلوک رٹنے والے پنڈتوں کی طرح۔ قرآن نہ تو یہ خود سمجھیں گے اور نہ سننے والے۔
مختصر یہ کہ جس طرح شودر پنڈت کی انگلی پکڑ ے بغیر چل ہی نہیں سکتے، اسی طرح یہ قوم بھی مرشدوں، ملاّوں، اور منافق لیڈروں کی انگلی پکڑے بغیر چل ہی نہیں سکتی۔ یہ سب انہی امیر لیڈروں کے پیچھے چلتے رہیں گے جن کی دولت اوقاف کی زمینوں پر قبضوں، کمزوروں کی حق تلفی، دلالی اور فاشسٹوں سے ہاتھ ملالینے کے نتیجے میں جمع ہوئی ہے۔ دوسری طرف صحافی اور کالمسٹ اخباروں یا سوشیل میڈیا میں حالاتِ حاضرہ پر ایک بیوا جیسا رونا روتے رہیں گے، ظالم کے ظلم کو بیان کر کر کے پوری قوم کی شکست، ہزیمت اور ذلت کو تسلیم کرتے رہیں گے۔
میں جانتا ہوں یہ سب پڑھتے ہوئے قارئین کے ذہن میں ایک تنقیدی مضمون چل رہا ہوگا۔ ”مایوسی کفر ہے“، ولا تھنوا ولا تحزنوا، نصر من اللہ فتح قریب جیسی خوشخبریوں سے مجھے نصیحت فرمانے کی کوشش کریں گے۔ لیکن وقت گزر چکا ہے۔ اب یہ تسلیاں بچے کو کل چاند دِلانے والی تسلیاں ہیں۔
میں جانتا ہوں کہ امید مرچکی ہے۔ جولوگ انکار کررہے ہیں وہ ایسے ہی لوگ ہیں جو، جب ڈاکٹر آپریشن تھیٹر سے نکل کر کہتا ہے کہ مریض انتقال کرگیا ہے تو کہتے ہیں ”نہیں وہ نہیں مرسکتا، وہ زندہ ہے“۔
کچھ لوگ کہیں گے کہ راقم الحروف کو صرف اللہ سے صلہ حاصل کرنے کی امید رکھنی چاہئے تھی۔ لوگوں سے صلہ حاصل کرنے کی تمنا میں یہی انجام ہوتا ہے اور لوگوں سے گِلے شکوے پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہ مثالیں بھی دیں گے کہ فلاں مجاہد تھے، انکا بیٹا بھی شہید ہوگیا تھا، فلاں جیل گئے تھے لیکن انہوں نے شکایت کا ایک لفظ بھی زبان پر کبھی نہیں لایا، ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ لوگ صرف احتجاج اور اپوزیشن میں اللہ کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
نشاۃ ثانیہ کو واپس لانے کی دور دور تک نہ کوئی تمنا ہے، نہ شعور اور نہ ہمت۔ ایک معمولی مسجد کی کمیٹی نہیں چلا سکتے ہیں، مسجد کو گندی سیاست سے آلودہ کردیتے ہیں، حکومت چلانے کی بات کیسے کرسکتے ہیں؟ یہ سمجھتے ہیں کہ فاشسٹ خود ہی ابو بکر، عمر اور علی ؓ کی تاریخ پڑھیں گے اور خود ہی آپ کو ایسی حکومت قائم کرنے کی درخواست کریں گے۔پھر آپ کی حکومت قائم ہوجائیگی۔ ہرطرف انصاف ہی انصاف ہوگا۔ کوئی مسلمان نہ جھوٹ بولنے والا رہے گا، نہ جاسوس، اور نہ زمینوں پر قبضے کرکے شادی خانے بنوانے والا۔
تاریخ پڑھئے۔ مسلمانوں کی اکثریت پہلے شودر تھی۔ آپ کے آباء و اجداد کبھی حکمران نہیں رہے۔ وہ پہلے پنڈتوں کے غلام تھے، پھر افغان، ترک یا عرب بادشاہوں کے غلام سپاہی تھے، پھر انگریزوں کے غلام ہوئے، پھر اس فاشسٹ جمہوریت کے۔صدیوں سپاہی گری کرتے رہے یا ان بادشاہوں کے درباروں میں آداب اور قدم بوسی بجا لاتے رہے۔ آپ صدیوں سے غلام تھے، غلام ہیں اور غلام رہیں گے۔ اب”ہم نے ہزار سال حکومت کی“کے زعم میں رہنے والی قوم کو اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ اب یہ قوم صرف چوہوں کی قوم ہے۔ چوہے جو خالی کمروں میں خوب دندناتے پھرتے ہیں۔
تعلیم یافتہ چوہے، دیندار چوہے، سوٹ اور شیروانیوں والے چوہے، اپنی ہی قوم کے کمزور چوہوں کو دبانے والے طاقتور چوہے، اک ذرا بلیّ کی آواز کیا آجائے پورے کے پورے ڈر کر بھاگتے ہیں اور بِلوں میں گھس جاتے ہیں۔ جاتے جاتے یہ مشورے بھی دے جاتے ہیں کہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھ دیجئے۔ کوئی ٹھہرتا نہیں۔ انہیں ای ڈی کا خوف، این آئی اے، سی آئی ڈی، یو اے پی اے، ٹاڈا وغیرہ کا خوف لگا رہتا ہے۔ وہ تو دور کی بات ہے صرف ایک کانسٹیبل گھر پر آجائے تو تھر تھر کانپنے لگتے ہیں۔کیا 2024 کے بعد اچانک یہ سارے چوہے شیر بن جائینگے؟
اگر نسلوں کو مکمل غلامی میں جانے سے بچانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلا کام یہ کیجئے کہ اپنے آپ سے صرف ایک ہی سوال پوچھئے کہ آپ خود کیا کرسکتے ہیں، کتنا وقت اور کتنا مال خرچ کرسکتے ہیں۔ کچھ حرکت کرنا چاہتے ہیں یا نہیں؟ اگر کوئی مثبت جواب مل جائے تو آجایئے یا فون کیجئے، اور بتایئے کہ آپ کیا کرسکتے ہیں۔اور اگر کچھ نہیں کرسکتے تو کم سے کم اتنا کیجئے کہ خدارا مشورے مت دیجئے، اور تبصرے مت کیجئے، اور نہ مضمون کو داد و تحسین سے نوازیئے۔ یہ سن کر میں بیمار ہوجاتا ہوں، میں اب باقی کے دن جو مرحومہ کی مغفرت کے لئے کچھ دعاؤں میں گزارنا چاہتا ہوں، فضول مشوروں سے اس میں خلل پڑتا ہے۔ پلیز