زندگی میں مسائل ، مصائب اور مشکلات آتے رہتے ہیں، ایسے میں انسان گھبرا جاتا ہے ، بے چین ہو اٹھتا ہے اور اس پر مایوسی، ناامیدی اور ڈپریشن کا حملہ ہوتا ہے، یہ حملہ ان مصائب ومشکلات سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت کو خاصہ متاثر کرتا ہے، مصائب کچھ بھی ہو سکتے ہیں۔
نوکری چھوٹ جائے یا کسی قریبی عزیز کی موت کا غم ، دنیا سے دل اُچاٹ ہوجاتا ہے ، کبھی اپنی گرتی صحت اور دوا علاج سے فائدہ نہیں ہونے کی وجہ سے بھی آدمی اپنی زندگی سے مایوس ہوجاتا ہے، خصوصا اس وقت جو ملک کے حالات ہیں اور مسلمانوں کو جن مسائل کا سامنا ہے۔
حکومتی سطح پر ان کو دوسرے درجہ کے شہری بنانے کی جو مہم چل رہی ہے، اور جس طرح مسلمانوں کی گرفتاریاں عمل میں آرہی ہیں، اور دس بیس سال کے بعد عدالت ان کو با عزت بری کر رہی ہے، زندگی کے قیمتی مہہ وسال قید وبند میں گذر جاتے ہیں اور باہر آنے کے بعد بھی سماج کی ترچھی نظروں کا ان کو سامنا کرنا پڑرہا ہے، اس سے مستقبل کے بارے میں مایوسی اورخوف کا غلبہ ہے، یہ مایوسی آپ کے حال اور مستقبل کو متاثرنہ کرے، اس کے لئے خود کو پُر عزم رکھنا ضروری ہے۔
حالات سے گھبرانے کے بجائے حالات سے مقابلہ کی قوت اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے، گو یہ بہت آسان نہیں ہوتا، اس کے لیے خود کو نفسیاتی طور پر تیار کرنا ہوتا ے ، اور اپنی ذات سے کونسلنگ کرنی ہوتی ہے ، اس کونسلنگ کا پہلا سوال یہ ہو سکتا ہے کہ فکر مند ہو کر کوئی فائدہ نہیں ہے، اس لیے کہ جو کچھ ہوچکا ہم اس کے لوٹانے پر قادر نہیں ہیں۔
حالاںکہ آپ ہر ممکن اس خبر کے بُرے اثرات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو گیے تھے اور اس کے نتائج پر بھی آپ کی گہری نظر تھی، لیکن تدبیر کے درجہ میں آپ اس کو رو کنے پر قادر نہیں تھے، اس لیے دل ودماغ میں خوف کو نہیں گُھسنے دیں، بہت سارے کام خوف کی نفسیات سے بگڑجاتے ہیں۔
ظاہر ہے فکر مند ہونا ایک فطری چیز ہے، لیکن اس فکر مندی میں بھی مایوسی کے بجائے امید کا دامن تھامے رکھیں اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، اللہ کی رحمت سے مایوس وہی ہوتے ہیں، جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے، اللہ کی رحمت پر ایمان آپ کو مایوسی کے دلدل سے نکالنے میں انتہائی ممد ومعاون ہوگا۔
اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ ہر حالت میں اپنے کو پُر سکون رکھیں، آپ کو پُر سکون رکھنے میں آپ کے خاندان اور قرب وجوار کے لوگوں کی بھی بڑی اہمیت ہے، ان کے تعاون سے مصیبت کی گھڑی کو سہنے اور اس کے مضر اثرات سے نکلنے کا کام آپ بڑی آسانی سے کر سکتے ہیں، جو کچھ ہو گیا اس کو یاد کرکرکے ہلکان اور جو ہونے والا ہے اس کے بارے میں سوچ کر پریشان نہ ہوں۔
اس لیے کہ جو کچھ آپ سوچ رہے ہیں کہ ایسا ہوجائے گا، اس کی حیثیت بسا اوقات وہم سے زیادہ نہیں ہوتی او وہ عموما وقوع پذیر نہیں ہوتا، لیکن ہمارے دل میں جو خوف بیٹھ گیا ہے وہ ہمیں کسی کام کا نہیں رکھتا، میں یہاں مکمل کنفیڈنس خود اعتمادی کی بات نہیں کرتا، کبھی اوور کنفیڈنس (overconfidece)سے بھی نقصان پہونچ جاتا ہے، اس لیے منفی احساسات وجذبات اور غیر ضروری خود اعتمادی کے درمیان ایک توازن پیدا کریں، تاکہ یہ توازن آپ کی سوچ اور خیالات کو بھی معتدل کرکے مایوسی کے منفی اثرات سے بچا سکے۔
واقعات، حوادثات اور معاملات کی تہہ تک پہونچنے کی کوشش کیجئے، کیوں کہ سچ کے ہمیشہ دبے رہنے کی روایت قدیم ہے، ایسے موقع سے اپنے جوش کو بنائے رکھنا بھی ایک بڑا کام ہے، یہ جوش بنائے رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ کسی کام کے کرتے وقت ڈر اور خوف کو قریب مت آنے دیں، تنہائی کے بجائے تھوڑا وقت خاندان اور دوستوں کے ساتھ گذاریں۔
خود کو ضرورت سے زیادہ کام میں مشغول نہ رکھیں، چھٹیوں کے ایام و اوقات کو سیر وتفریح میں لگائیں، کچھ وقت بیوی بچوں کو دیں، اس لیے کہ اگر آپ نے مایوسی کا سایہ ان پر ڈالا اور ان کے ساتھ وقت نہیں گذارا تو وہ آپ کے بغیر جینا سیکھ جائیں، اس وقت آپ اپنے کو تنہا محسوس کریں گے۔
مایوسی کے اسباب ووجوہات کا تدارک کیا جائے، اگر یہ حالات آپ کی کسی غلطی کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوئے ہیں تو اس سے سیکھ لیں، مانیں کہ آپ سے چوک ہوئی ہے، آپ بھی انسان ہیں، اس لیے غلطی ہوئی ، خیال صرف یہ رکھنا ہے کہ بعد میں اس کا اعادہ نہ ہو، ایسے موقعوں سے یہ بات بہت اہم ہے کہ اس غلطی سے آپ کس قدر سیکھتے ہیں، کسی کام میں عجلت نہ کریں، ہر کام کا آغاز دھیمی رفتار سے کریں ، تاکہ پہلے مرحلہ میں ہی ناکامی سے آپ مایوسی کا شکار نہ ہوں، اسلام میں تھوڑا کام اور مسلسل کام کی اہمیت بتائی گئی ہے۔
آپ کام کریں گے تو کبھی ناکامی کا بھی سامنا کر نا پڑ سکتا ہے، ایسے میں آپ نروس نہ ہوں، گھبرائیں نہیں، یقینا ناکامی کے اثرات آپ کے دل ودماغ پر پڑیں گے ، لیکن ناکامی کے خوف سے کام کا آغاز نہ کرناانتہائی درجہ کی بزدلی ہے، کام آپ اپنی پسند کا منتخب کریں، اس میں دل لگائیں، اس کی وجہ سے آپ خوشی محسوس کریں گے، خوشیاں کوئی بڑا کام نہیں کرتئیں، لیکن وہ اداسی کو قریب نہیں کرنے دیتیں، یہ خوشی ہلکی معلوم ہوتی ہے، لیکن جب چلی جاتی ہے اور پریشانیاں آتی ہیں ، تب احساس ہوتا ہے کہ ہم نے کیا کھودیا ہے اور وہ کتنی قیمتی شئے تھی۔
خوشیاں حاصل کرنے کا ایک طریقہ محبت بھی ہے، نفرت کی سودا گری کے اس دور میں خوشیوں کی کاشت آپ کو مایوس ہونے سے بچا بھی لے گی اور اگر آپ مایوس ہیں تو اس کے دور کرنے میں معاون ہوگی، کسی کا بُرا نہ چاہیں اور جو آپ کا بُرا چاہتے ہیں ان کو بھی اپنے عمل سے بتائیںکہ وہ ان کے بھی خیر خواہ ہیں۔
مایوسی کے باوجود موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیجیے، اپنی ہمت اور صلاحیت کو مجتمع کیجیے اور ذہن میں بٹھائیے کہ اگر میں اس میں کامیاب نہ بھی ہوا تو میرے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں، اس طرح آپ ایک تجربہ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔
ہو سکتا ہے یہ تجربہ ہی آپ کو مایوسی کے دلدل سے نکال دے ، آپ کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ سب کچھ ہماری خواہش مرضی اور ضرورت کے مطابق ہو یہ ضروری نہیں؛ لیکن ہم اپنی ناکام خواہشوں کا متبادل تلاش کر سکتے ہیں، یہ ہمارے بس میں میں ہے، آپ خواہشوں کی تبدیلی کے ساتھ کام کے طریقۂ کار کو بدل کر بھی مایوسی پر ایک ضرب لگا سکتے ہیں۔
مایوسی دور کرنے کے بہت سارے طریقے کتابوں میں درج ہیں، آپ ان کو پڑھ کر برت سکتے ہیں، لیکن برتنے کا یہ کام آپ کو خود ہی کرنا ہوگا، اپنی زندگی کو بے رس اور بے کیف نہ ہونے دیں، مصیبت اور پریشانی کے لمحات میں یاد رکھیں کہ ’’یہ دن بھی گذر جائیں گے‘‘ آپ اپنے حالات کا دوسروں کو ذمہ دار نہ ٹھہرائیں، اس سے آپ خود احتسابی سے محروم ہوجاتے ہیں، اس لیے اپنی پریشانیوں کا ذمہ دار خود کو سمجھیں۔
اس سوچ کے نتیجے میں آپ کا ذہن اپنی الجھنوں کو خود ہی دور کرنے کے لیے تیار ہوگا، یہ اپنے میں بڑی بات ہے،حالات چاہے جتنے پریشان کن ہوں، ان کا سامنا کرنا آپ ہی کو ہے اور آپ اپنی صلاحیت، توانائی اور قوت سے موجودہ حالات سے نکل کر مستقبل کو مفید اور کار آمد بنا سکتے ہیں، آپ کو یقین کرنا چاہیے کہ ہر تاریک رات کے بعد روشن صبح ہوتی ہے اور مستقبل میں یہ روشن صبح آپ کی زندگی کا حصہ بننے والی ہے ۔