صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نے ایک پریس ریلیز میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کے حجاب کے سلسلہ میں بڑی بینچ کے حوالے کرنےکے فیصلہ پر کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ سے امید بڑھی ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ آئینی بینچ اس اہم مسئلہ پر سماعت کرکے مسلمانوں بالخصوص ان مسلم بچیوں کو راحت دے گی جو اپنی مذہبی شناخت کی حفاظت کرتے ہوئے حجاب پہن کراسکول وکالج میں پڑھائی کرنا چاہتی ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ میں دوججوں کی بینچ نے اس پر سماعت کی تھی، اوران میں سے ایک جج نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ کو درست ٹھہرایا وہیں دوسرے جج جسٹس دھولیہ نے یہ کہہ کر مذکورہ فیصلے سے عدم اتفاق کا اظہار کیا ہے کہ سب کی اپنی اپنی پسند ہے اور لڑکیوں کی تعلیم کے معاملہ میں انہیں ہر طرح کی اجازت دینی چاہئے، چنانچہ اس معاملہ کو اب تین ججوں پر مشتمل آئینی بینچ کے حوالہ کردیا گیا ہے۔
جسٹس دھولیہ کا یہ کہنامثبت ہے کہ سب کی اپنی اپنی پسندہے، ہم لڑکیوں کی تعلیم کے معاملہ میں انہیں مذہبی سطح پرہرطرح کی اجازت دینے کے حق میں ہیں اوراس کو دستوری حق سمجھتے ہیں۔
مولانا مدنی نے کہا کہ کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ حجاب کے سلسلہ میں اسلامی تعلیمات اور شرعی حکم کے مطابق نہیں تھا، جو احکام فرض یا واجب ہوتے ہیں وہ ضروری ہوتے ہیں، ان کی خلاف ورزی کرنا گناہ ہے، اس لحاظ سے حجاب ایک ضروری حکم ہے، اگر کوئی اس پر عمل نہ کرے تو اسلام سے خارج نہیں ہوتا، لیکن وہ گنہگار ہوکر اللہ کے عذاب کا مستحق ہوتا ہے، اس وجہ سے یہ کہنا کہ پردہ اسلام کا لازمی جز نہیں ہے شرعا غلط ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ ضروری کا مطلب یہ سمجھ رہے ہیں کہ جس کے نہ کرنے پر وہ اسلام سے خارج ہوجائے گا حالانکہ ایسا نہیں ہے،کیونکہ اسلامی اصول یہ ہے کہ اسلام میں کسی بھی ضروری کام کرنے نہ کرنے سے آدمی اسلام سے باہر نہیں ہوجاتا، بلکہ کسی بھی ضروری کام کے جو قرآن سے یاحدیث سے ثابت اور فرض ہے نہ ماننے سے اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، اسی لئے اسلام میں شراب کی حرمت اور مناہی قرآن وحدیث سے ثابت ہے لیکن شراب پینے والااسلام سے خارج نہیں ہوجاتا،ہاں اگر اس کی حرمت کو نہیں مانتاتووہ مسلمان نہیں رہے گا اور اسلام سے خارج ہوجائے گا۔
مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ مسلمان اپنی کوتاہی اور غفلت کی وجہ سے نماز نہیں پڑھتے، روزہ نہیں رکھتے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نماز اور روزہ لازم اور ضروری نہیں ہے مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ یونیفارم مقرر کرنے کا حق اسکولوں کی حدتک محدود ہے جو معاملہ ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھا وہ اسکول کا نہیں کالج کا تھا، رہا دستوری مسئلہ تو اقلیتوں کے حقوق کے لئے دستورکے آرٹیکل 25اور اس کی ذیلی شقوں کے تحت جو اختیارات حاصل ہیں، وہ دستورمیں اس بات کی ضمانت دیتاہے کہ ملک کے ہر شہری کو مذہب کے مطابق عقیدہ رکھنے، مذہبی قوانین پر عمل کرنے اور عبادت کی مکمل آزادی ہے۔
ہندوستانی حکومت کا اپنا کوئی سرکاری ریاستی مذہب نہیں ہے، لیکن یہ تمام شہریوں کو مکمل آزادی دیتاہے کہ وہ اپنے عقیدہ کے مطابق کسی بھی مذہب پرچلیں اورعبادت کریں، مولانا مدنی نے کہا کہ سیکولرازم کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی فردیاگروہ اپنی مذہبی پہچان ظاہر نہ کرے ہاں یہ بات سیکولرازم میں ضرور داخل ہے کہ حکومت کسی خاص مذہب کی پہچان کو تمام شہریوں پر مسلط نہ کرے کیونکہ دستوری اعتبارسے حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہے، حجاب ایک مذہبی فریضہ ہے جس کی بنیادقرآن وحدیث ہے۔اس لئے ہم بحیثیت ایک مسلمان کے اس کے پابند ہیں۔