دہلی: کرناٹک کے سرکاری تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے خلاف عرضی پر سپریم کورٹ کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں آیا ہے، بنچ میں شامل دو ججوں کی رائے مختلف ہے۔ جہاں جسٹس ہیمنت گپتا نے حجاب پر پابندی کو برقرار رکھا ہے، وہیں جسٹس سدھانشو دھولیا نے پابندی جاری رکھنے کے کرناٹک ہائی کورٹ کے حکم کو منسوخ کردیا۔ اس صورت حال میں یہ معاملہ بڑی بنچ کو منتقل ہوگا۔ دو رکنی بنچ نے چیف جسٹس آف انڈیا سے اس معاملے میں بڑی بنچ تشکیل دینے کی درخواست کی ہے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس ہیمنت گپتا نے کرناٹک ہائی کورٹ کے اس حکم کو چیلنج کرنے والی اپیلوں کو خارج کر دیا جس نے ریاست کے تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے پر پابندی کے ریاستی حکومت کے حکم کو برقرار رکھا تھا۔
واضح رہے کہ 22 ستمبر کو اس معاملے کی پچھلی سماعت کے دوران ججز نے اس معاملے میں فیصلہ محفوظ کر لیا تھا اور کرناٹک حکومت کی طرف سے حجاب پر عائد پابندی کو ہٹانے سے انکار کر دیا تھا۔ عدالت کے روبرو دلائل 10 روز تک جاری رہے۔ عدالت عظمیٰ میں دلائل کے دوران، درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہونے والے متعدد وکیلوں نے اصرار کیا کہ مسلم لڑکیوں کو حجاب پہن کر کلاس روم میں جانے سے روکنے سے ان کی تعلیم خطرے میں پڑ جائے گی کیونکہ وہ کلاس میں جانا بند کر سکتی ہیں۔
درخواست گزاروں کے وکیل نے مختلف پہلوؤں پر بحث کی تھی، بشمول ریاستی حکومت کا 5 فروری 2022 کا حکم جس میں اسکولوں اور کالجوں میں مساوات، سالمیت اور امن عامہ کو خراب کرنے والے لباس پہننے پر پابندی تھی۔ کچھ وکلاء نے یہ بھی دلیل دی تھی کہ اس معاملے کو پانچ ججوں کی آئینی بنچ کے پاس بھیج دیا جائے۔
آپ کو بتادیں کہ 15 مارچ کو ہائی کورٹ نے کرناٹک کے اُڈپی میں گورنمنٹ پری یونیورسٹی گرلز کالج کی مسلم طالبات کی طرف سے دائر کی گئی درخواستوں کو خارج کر دیا، جس درخواست میں کلاس رومز کے اندر حجاب پہننے کی اجازت مانگی گئی تھی۔
ہائیکورٹ نے کہا تھا کہ یہ اسلامی تعلیمات میں ضروری مذہبی عمل کا حصہ نہیں ہے۔ ریاستی حکومت کے 5 فروری 2022 کے حکم کو کچھ مسلم لڑکیوں نے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں کئی عرضیاں دائر کی گئی ہیں۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے پر کئی ہفتوں بعد سماعت شروع کی تھی۔
واضح رہے کہ ریاست کرناٹک کے ضلع اڈوپی کے ایک پی یو کالج میں چھ طالبات کو حجاب پہن کر داخل ہونے سے روک دیا گیا جس کے بعد ان طالبات نے احتجاج کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ پوری ریاست میں پھیل گیا۔ ریاست کے مختلف کالجز اور اسکولوں میں باحجاب طالبات کو نہ صرف کالجز میں داخل ہونے سے روکا گیا بلکہ انہیں ہراساں بھی کیا گیا۔