ہرے بھرے چراگاہوں کے درمیان سرسبز گھاس اور نرم پتوں سے لطف اندوز ہوتا ہوا کوئی ہرن جیسے ہی کسی خطرے کی آہٹ کو محسوس کرتا ہے وہ چوکنا ہو جاتا ہے۔ اب اس کی توجہ کا مرکز پیش آمدہ خطرے سے نجات پانا ہو تا ہے۔ چراگاہ کی تمام شادابیاں اس کے نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں۔ زندگی پر منڈلا رہے خطرے کی وجہ سے وہ ایک خاص تناؤ (Stress) کا شکار ہو جاتا ہے جو اس کی فکر و نگاہ کو آس پاس میں موجود سبزا زاروں سے کاٹ کر اس بات پر مرکوز کر دیتی ہے کہ وہ خود کو اس خطرے سے باہر نکال سکے۔
جیسے ہی گھات میں بیٹھا درندہ اس پر حملہ آور ہوتا ہے، وہ اپنی پوری قوت کے ساتھ دوڑ لگا دیتا ہے اور اپنی رفتار کو تیز سے تیز تر کرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ خود کو خطرے سے محفوظ کر لیتا ہے۔ جب وہ محسوس کرتا ہے کہ اب وہ خطرے سے باہر آگیا ہے۔ دشمن کہیں دور ناکام تعاقب کے بعد تھک ہار کر بیٹھ چکا ہے۔ اس احساس کے ساتھ ہی وہ ہرن اپنی سابقہ Stress کی کیفیت سے بابر نکل آتا ہے اور پھر سے اپنے آس پاس میں دستیاب ہریالیوں سے لطف اندوز ہونے لگتا ہے۔
فطرت کا قانون ہے کہ کسی بھی قسم کا خطرہ پیدا ہونے پر ہر جاندار تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے، یہ احساس اس کے تمام افکار کو ہر جانب سے کاٹ کر ایک خاص سمت میں متعین اور محدود کر دیتی ہے، جو اسے اس خطرے سے باہر نکالنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
اس معاملے میں انسانوں اور دیگر جانداروں کے درمیان ایک فرق ہے۔ وہ یہ کہ دیگر جانداروں کے دماغ کا تخیلاتی تانا بانا ایسا نہیں ہے جیسا کہ انسانوں کا ہے لہذا وہ خطرے کی حالت سے باہر آتے ہی Stress free ہو جاتے ہیں جبکہ انسان اپنی قوت تخیل کی بنا پر فرضی خطروں کے بوجھ کو ڈھوتا رہتا ہے اور خود کو غیر ضروری تناؤ میں مبتلا کئے رہتا ہے۔
میں جب سن شعور کو پہنچا تو میں نے پایا کہ ہماری ملی زندگی تناؤ کا شکار ہے۔ ہم فرضی خطرات کے خوف سے چیخ و پکار کر رہے ہیں۔ خود ساختہ سازشوں کے جال میں پھنسے ہوئے کسمسا رہے ہیں۔ یہ سلسلہ نہ کہیں تھما اور نہ رکا۔ پیشہ ور مقررین ، نام نہاد واعظین، پشتینی قائدین اور مفاد پرست رہنماؤں نے اسے ایک ہتھکنڈے کے طور پر جاری و ساری رکھا۔اگر وہ خطرات درست ہوتے، تخمینوں کے عین مطابق ہوتے تو ہم اب تک اپنا وجود کھو چکے ہوتے۔
اگر اس سے آگاہ کرنے والوں نے سہی آگاہی دی ہوتی اور اسی کے پیش نظر ہم نے اپنی سفر کا سمت متعین کیا ہوتا تو ہم آج Stress کی کیفیت سے بابر ہوتے اور معاشرتی برتری کی سعادتوں سے بہرور ہو رہے ہوتے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ سازشوں کے افسانے سنائے جاتے رہے، نادیدہ دشمنوں کے عفریتی ہیولے ہمارے پیچھے دوڑائے جاتے رہے اور بس۔ نہ کوئی لائحہ عمل اور نہ پلاننگ۔ نتیجتا ملک میں ہم بحیثیت امت روزانہ کی بنیاد پر خراب سے خراب تر کا سفر کرتے رہے۔
آج کے خراب حالات ہماری گزشتہ کل کی کوتاہیوں کا نتیجہ ہیں اور مستقبل میں لاحق ہونے والی پریشانیاں آج کی بے عملی کا نتیجہ ہوں گی۔ کل کے حالات میں ہم ایسے الجھے کہ آج کے لیے تیاری نہیں کی۔ آج ایسے پریشان ہیں کہ آئندہ کل کے لیے کوئی لائحہ عمل اور پلان نہیں ہے۔
وہ تنظیم اور ادارے جو خود کو ریاستی اور ملک گیر سطح پر مسلمانوں کا رہنما سمجھتی اور دعوی کرتی ہیں ان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ موجودہ مسائل سے دو دو ہاتھ ہونے کے ساتھ ساتھ ملت کے لیے ایک مؤثر اور ہمہ جہت خاکہ تیار کریں۔ جس میں مستقل کی اچھی پلاننگ ہو۔ جو شامل اور کامل ہو۔ انھیں دو نوں محاذوں پر بیک وقت کام کرنا پڑے گا۔ یعنی آج کے ناموافق حالات سے روبرو ہونا اور مستقبل کے لیے ایک جامع لائحہ عمل پر عمل درآمدگی کو یقینی بنانا۔
تناؤ (Stress) خواہ انفرادی حیثیت کی ہو یا ملی اور قومی، اس کے لیے ایک سادہ سا اصول یہ ہے کہ فکر، شعور اور عمل کو ملا کر جو مثلث بنتا ہے اسے درست رکھا جائے۔ اس کی صحیح سائیکلنگ آپ کو تناؤ سے مغلوب نہیں ہونے دے گی اور زندگی کی گاڑی اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہے گی۔
تنگی کے ساتھ ساتھ آسانی(إن مع العسر يسرا) پر اگر واقعی ہم ایمان رکھتے ہیں تو ہمیں فوری طور پر خود کو Stress کی کیفیت سے بابر نکال کر موجود مواقع اور ذرائع کو استعمال کرنا چاہئے۔ شکوہ سنجی کی راہ کو چھوڑ کر مثبت فکر کو اپنانا چاہئے۔ فرضی خطرات اور سازشوں سے آزاد ہو کر واقعیت پسندی کو راہ دینی چاہیے۔ آج کے ناموافق حالات میں کل کے موافق حالات کے لئے تیاری کرنی چاہئے ۔