ایران کے شہر قیز میں اور دیگر علاقوں میں مبینہ طور پر حجاب کے سخت قوانین کی پابندی نہ کرنے کے الزام میں اخلاقی پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے والی 22 سالہ ایرانی خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف احتجاجی مظاہرے جاری ہیں، مہسا امینی کے جنازے کے دوران خواتین نے احتجاجا اپنے سروں سے اسکارف نکال دیا تھا اور حکومت مخالف نعرے بازی کی۔
سوشل میڈیا پر کچھ ویڈیوز میں ’آمر مردہ باد‘، ’سکارف کے لیے قتل، کب تک سر پر مٹی‘ اور ’عورت، زندگی، آزادی‘ کے نعرے لگاتے ہوئے لوگوں کو سنا جاسکتا ہے۔
قیز شہر میں امن و امان کی خراب صورتحال کے باوجود مہسا امینی کو ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کی موجودگی میں سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔ مہسا امینی کی خالہ نے مہسا امینی کو ’نوجوانوں کی شہید‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مہسا نے ہمارے لیے آزادی کا راستہ کھول دیا۔‘
ایرانی اسلامی جمہوریہ کے خلاف احتجاج اور مہسا امینی کے اہل خانہ سے ہمدردی کی لہر جاری ہے اور مختلف سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں نے بھی ان کی موت کے حوالے سے بیانات دیے ہیں۔
مہسا امینی کی حراست اور پھر ہلاکت
عینی شاہدین کے مطابق مہسا امینی کو پولیس وین کے اندر اس وقت مارا پیٹا گیا جب انھیں منگل کو تہران سے حراست میں لیا جا رہا تھا اور انہیں اخلاقی پولیس کی جانب سے حجاب قوانین پر عمل نہ کرنے پر حراست میں لیا جارہا تھا۔ تہران پولیس نے کہا کہ امینی کو حجاب کے بارے میں ’جواز اور تعلیم‘ دینے کے لیے گرفتار کیا گیا تھا جو کہ تمام خواتین کے لیے پہننا لازمی ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ افسران خواتین کو حراست میں لے رہے ہیں، انھیں زمین پر گھسیٹ رہے ہیں اور زبردستی انھیں باہر لے جا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ ایران میں خواتین کے لئے اسلامی لباس کوڈ قانون لاگو ہے جس کے تحت انہیں عوامی مقامات پر حجاب یا اسکارف پہننا لازمی ہے اور اس کے لئے حکومت کی جانب سے اخلاقی پولیس کا بھی محکمہ قائم کیا گیا تاکہ خلاف ورزی کرنے والوں پر کارروائی کی جائے۔