سہارنپور: اترپردیش حکومت کی جانب سے ریاست میں غیر منظور شدہ دینی مدارس کے سروے کے حکم کے بعد سے پیدا پے چینی کے درمیان ملک کے معروف دینی ادارے دارالعلوم دیوبند نے تمام ہی غیر منظور شدہ دینی مدارس سے سرکاری سروے میں بلا خوف وتردد تعاون کا طرز عمل اختیار کرنے کی اپیل کی ہے۔
دارالعلوم دیوبند کے زیر اہتمام مدارس کا نمائندہ اجلاس بمقام جام رشید دارالعلوم دیوبند میں منعقد ہوا جس میں 300 سے زائد مدارس کے زمہ داران نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد جمعیۃ علماء ہند کے سربراہ مولانا سید ارشد مدنی اور دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے میڈیا نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے ان سے مدارس کے تئیں مثبت رویہ اپنانے کی اپیل کی اور کہا کہ ملک کے لئے مدارس کی قربانیوں کو کبھی بھی کسی صورت فراموش نہیں کیا جاسکتا، مدارس کے اس پہلو کو نمایاں کرنے کی ضرورت ہے۔
مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ’’عربی کلاس شروع ہونے سے پہلے پہلے درالعلوم ہر بچے کو ہائی اسکول کا امتحان دلائے گا وہیں جہاں تک دوسرے مدارس سے دارالعلوم میں داخلہ لینے کے لئے آنے والے طلبہ کے ہائی اسکول پاس ہونے کی بات ہے تو اگلے سال جب ہم اسے نافذ کردیں گے اس کے بعد دیگر مدارس کو 5۔6سالوں کی مہلت دیں گے پھر جو بھی طالب علم دارالعلوم میں داخلے کا خواہش مند ہوگا اس کے لئے ہائی اسکول کی لازمیت ہوگی۔
مولانا ارشد مدنی نے دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کا بھی نظم کرنے کی اہل مدارس کو ہدایت دیتے ہوئے کہا تھا کہ دارالعلوم میں آئندہ سال سے ہائی اسکول تک کی عصری تعلیم کا لازمی انتظام ہو جائے گا تمام مدارس میں بھی اس کا انتظام کیا جانا چاہئے۔
اجلاس میں مدارس اسلامیہ سے اپیل کی گئی ہے کہ سروے ٹیم کو صحیح اور واقعی معلوما ت فراہم کریں، مالیات کا نظام چست و درست رکھیں اورحسب ضرورت اسے آڈٹ کرائیں، مدرسہ کے ملکیت کے دستاویزات کو درست اور مدرسہ میں طلبہ کے لئے صحت مند ماحول کو قائم کرنے کے ساتھ مدرسہ کو چلانے والی سوسائٹی یا ٹرسٹ کا رجسٹریشن قانونی تقاضوں کے مطابق کرانے کی ہدایت دی گئی ہے۔
اعلامیہ میں تمام مدارس سے اپیل کی گئی ہے کہ حکومت کی جانب سے ہونے والے حالیہ سروے کے عمل سے کسی خوف یا ذہنی انتشار کا شکار نہ ہوں، نہ کسی جذباتیت کا مظاہرہ کریں بلکہ اس کو ایک ضابطہ کی کاروائی سمجھتے ہوئے تعاون کا طرزعمل اختیار کریں۔
اعلامیہ میں واضح کیا گیا ہے کہ ان مدارس کے کردار کا ایک حسین پہلو یہ بھی ہے کہ ان کی کوئی سرگرمی خفیہ نہیں ہے مدرسوں کے اندر کسی کے آنے جانے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے خفیہ محکمے اور تفتیشی ادارے بھی پوری طرح سے مطمئن رہتے ہیں۔
مدارس کے روشن باب کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ملک بھر میں چلنے والے دینی مدارس اپنی تعلیمی و تربیتی اور ملکی و سماجی خدمات کی ایک روشن تاریخ رکھتے ہیں۔ مداراس نے جہاں ایک طرف ملک کو نہات ذمہ دار مزاج کے حامل شہری عطا کئے تو دوسری طرف ملک کی آزادی کے لئے ہر قسم کی قربانی دی اور علماء کی قیادت میں مسلمانوں کو تحریک آزادی میں برادران وطن کے دوش بدوش بلکہ ان سے آگے برھ کر قربانیاں دینے کے لئے تیار کیا جس کی گواہی اس ملک کا چپہ چپہ دیتا ہے۔