ڈنمارک کی حکمران سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے قائم کردہ ایک ادارے نے حکومت کو ڈینش ایلیمنٹری اسکولوں میں اسکارف پر پابندی کی تجویز پیش کی ہے۔
حکومت کی جانب سے اسکارف پر پابندی کی تجویز کے بعد ملک میں ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے جبکہ بعض شہروں میں اس تجویز کے خلاف احتجاج بھی شروع ہوگیا ہے۔
دیگر سفارشات میں ڈینش زبان کے کورسز فراہم کرنے، نسلی اقلیتی خاندانوں میں بچوں کی پرورش کے جدید طریقوں کو فروغ دینے اور ایلیمنٹری اسکولوں میں جنسی تعلیم کو مضبوط بنانے کی تجویز ہے۔
کمیشن کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسکولوں میں اسکارف کا استعمال بچوں کو دو گروہوں میں تقسیم کر سکتا ہے۔ آرہس یونیورسٹی میں ڈینش سکول آف ایجوکیشن میں ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر ارم خواجہ نے بھی اس تجویز کے خلاف کہا ہے کہ پابندی سے لڑکیوں کو درپیش مسائل حل نہیں ہوں گے۔
واضح رہے کہ اسکارف پر پابندی کی تجویز پر عمل درآمد ہونے کی صورت میں طالبات اسکارف اتارنے پر مجبور ہو جائیں گی۔ خیال رہے کہ یوروپ کے کئی ممالک میں اسکارف اور حجاب کے خلاف آئے نئے نئے چیزیں سامنے آتی رہتی ہے۔ اور حجاب کے باعث مسلم خواتین کو کئی مرتبہ ہراسانی کا شکار بھی ہونا پڑتا ہے۔