ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں، علماء کرام بالخصوص مسلم حکمرانوں کی جدوجہد کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے، انہیں فریڈم فائٹرز میں آندھرا پردیش کے ضلع کرنول کے نواب غلام رسول خان بھی شامل ہیں جنہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہلکاروں میں دہشت پیدا کردی تھی۔
آندھرا پردیش کے کرنول کے نواب غلام رسول خان 1823 میں اقتدار میں آئے۔ اپنے بچپن سے ہی غلام رسول خان نے کبھی غیر ملکی حکمرانوں کی پرواہ نہیں کی۔ اقتدار میں آنے کے بعد خان نے اپنی ریاست کو انگریزوں سے بچانے کے لیے ہر طرح کا بندوبست کیا تھا۔ انہیں یقین تھا کہ انہیں انگریزوں کے خلاف لڑنا ہے، اور وہ اس کے لیے تیار تھے۔ ان کی دوستی ریاست نظام کے ایک شہزادے گوہر علی خان عرف مبارز الدولہ سے ہوئی۔ انہوں نے کرنول کے اپنے قلعے کو آرڈیننس فیکٹری میں تبدیل کر دیا۔
نواب غلام رسول کے کزنز نے اقتدار کی لالچ میں انگریزوں کے ساتھ ملی بھگت کی اور ان کے خلاف سازشیں کیں۔ خان کے بھائیوں نے جنرل فریزر کو غلام رسول کی 23 اگست 1839 کو جنگ کے لیے تیاری کے بارے میں مخبری کی۔
خان کی جنگ کی تیاری کی خبر سے گھبرا کر ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایڈورڈ آرمسٹرانگ کو اس معاملے کی تحقیقات کرنے اور فوری طور پر رپورٹ کرنے کے لیے مقرر کیا۔ ایڈورڈ نے جنرل فریزر کو خط لکھا کہ کرنول کے نواب کا اسلحہ خانہ بہت بڑا ہے۔ جنگ کے لیے اس کی تیاری کو بیان کرنا مشکل ہے۔ اس نے باغات اور شاہی محلات کو آرڈیننس فیکٹریوں میں بدل دیا۔’
اس اطلاع نے جنرل فریزر کی ریڑھ کی ہڈی کو ہلا کر رکھ دیا، جس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی افواج کو فوری طور پر کرنل اے بی کی کمان میں کرنول کے قلعے پر قبضہ کرنے اور نواب غلام رسول خان کو گرفتار کرنے کے لیے بھیجا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کے فوجیوں نے 12 اکتوبر 1839 کو کرنول کے قلعے پر حملہ کیا اور اسے گھیر لیا۔ چھ دن کی شدید لڑائی کے بعد دشمن غلام رسول خان کو 18 اکتوبر 1839 کو کرنول کے قریب ایک گاؤں جوہرا پورم میں حراست میں لینے میں کامیاب ہو گیا۔
بعد میں وہ غلام رسول خان کو تروچیناپلی لے گئے اور رسول خان کو تروچیناپلی جیل میں قید کر دیا۔ انگریز حکمران کرنول کے نواب کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے ذاتی نوکر کو نواب کو زہر آلود کھانا پیش کرنے میں رشوت دی جس کی وجہ سے نواب غلام رسول خان 12 جولائی 1840 کو انتقال کر گئے۔
کمپنی نے نوکر پر قتل کا الزام لگایا اور اسے موت کی سزا سنائی۔ انگریز حکمرانوں نے اس سازش کو چھپانے کی ہرممکن کوشش کی لیکن تاریخ نے وقت کے ساتھ ساتھ حقیقت کو آشکار کردیا۔ غلام رسول خان کو آج بھی آندھرا پردیش کے رائلسیما علاقے کے لوگ یاد کرتے ہیں، جہاں وہ اب بھی ‘کنداناولو نوابو کتھا’ (کرنول نواب کی کہانی) کے عنوان سے گانا گاتے ہوئے ان کی ستائش کرتے ہیں۔
(سید نصیر احمد تلگو زبان کے رائٹر اور صحافی ہے، موصوف نے ہندوستان کی آزادی میں مسلم حکمرانوں کی جدوجہد پر متعدد کتابیں تصنیف کی ہے۔ ان کی متعدد کتابوں کا دیگر زبانوں میں ترجمہ کیا جاچکا ہے۔ زیر نظر مضمون بھی موصوف ہی نے تلگو زبان میں تحریر کیا ہے جو سیاست ڈاٹ سے ترجمہ کیا گیا۔)