اترپردیش حکومت نے ریاست میں غیر منظور شدہ مدارس کا سروے کرانے کا حکم دیا ہے جبکہ آسام میں مدارس اسلامیہ کو منہدم کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
نئی دہلی: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے اپنے پریس نوٹ میں کہا ہے کہ آر ایس ایس کے فکر ونظریہ کی نمائندہ جماعت ابھی مرکز اور ملک کی متعدد ریاستوں میں برسراقتدار ہے، جو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے تئیں کھلے طور پر منفی نظریات کی حامل ہے؛ حالانکہ کسی بھی فکر اور نظریہ سے متأثر جماعت جب برسراقتدار آتی ہے تو اس سے امید ہوتی ہے کہ وہ آئین اور دستور کی روح کے مطابق کام کرے گی اور اس کی نظر میں تمام شہری برابر ہوں گے، خود وزیراعظم بھی پارلیمنٹ اور دیگر فورمز پر آئین و قانون کی بات کرتے ہیں؛ لیکن ان کی حکومت اورمختلف ریاستوں میں برسراقتدار ان کی پارٹی کا طرز عمل اس سے الگ ہے۔
یوپی اور آسام میں جس طرح مدارس پر شکنجہ کسا جارہا ہے اور اس سلسلے میں معمولی خلاف ورزیوں کو بہانہ بنا کر یا تو مدارس کو بند کیا جارہا ہے، یامدارس کی عمارت کو منہدم کیا جارہا ہے، یا پھر ان مدارس و مساجد میں کام کرنے والوں پر بلا دلیل دہشت گردی کا الزام لگایا جارہا ہے، اور بلاثبوت کارروائی کی جارہی ہے.
نیز آسام میں ملک کے دوسرے علاقوں سے آنے والے علماء پر قانونی و انتظامی قدغن لگائی جارہی ہے، یہ آئین میں دیے گئے حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے اور قطعاً قابل قبول نہیں ہے، اگر قانون کی معمولی خلاف ورزی پر مدارس کی بندش اور عمارتوں کا انہدام ہی واحد سزا ہے تو کیوں یہی پیمانہ گروکل، مٹھوں، دھرم شالاؤں اور برادران وطن کے دیگر مذہبی اداروں کیلئے نہیں اپنایا جاتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ حکومت آئین کو طاق پر رکھ کر من مانی کارروائی کررہی ہے۔
مسلم پرسنل لا بورڈ اس طرح کی متعصبانہ اور نفرت کے جذبہ پرمبنی کارروائیوں کی سخت مذمت کرتا ہے اور کسی منفی نظریہ کے بجائے آئین کی روح پرعمل پیرا ہونے کا مطالبہ کرتا ہے.
بورڈ مسلمانوں سے اپیل کرتا ہے کہ صبر وتحمل سے کام لیں اور ایسے غیر قانونی اقدامات کو اجتماعی کوششوں کے ذریعہ قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے روکنے کی کوشش کریں۔