حیدرآباد میں ایک سوئگی کسٹمر نے مسلم ڈیلیوری بوائے کے ہاتھوں کھانا نہ لینے کی اپیل نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھایا ہے کہ ‘کیا کھانے کا کوئی مذہب ہوتا ہے؟’۔
حال ہی میں فوڈ ایگریگیٹر کسٹمر نے سوئگی سے اپیل کی ہے کہ اس کا آرڈر کسی مسلمان ڈیلیوری بوائے سے نہ پہنچایا جائے۔
اس واقعہ کے بعد تلنگانہ اسٹیٹ ٹیکسی اور ڈرائیورز جے اے سی کے چیئرمین شیخ صلاح الدین نے کسٹمر کی طرف سے بیان کردہ اپیل کی اسکرین شاٹ شیئر کی اور سوئگی سے درخواست کی کہ وہ اس طرح کی اپیل کے خلاف کوئی ٹھوس قدم اٹھائے۔
فوڈ ایگریگیٹر نے ابھی تک اس واقعے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔حیدرآباد میں مسلم ڈیلیوری بوائیز کو کئی دفعہ ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے پہلے بھی حیدرآباد میں ایک سوئگی کسٹمر نے مسلم ڈیلیوری بوائے کا لایا ہوا آرڈر لینے سے انکار کردیا تھا۔ اور اس شخص نے نوٹ میں لکھا تھا کہ کھانا بہت کم مسالہ دار ہو اور براہ کرم آرڈر پہنچانے کے لئے کسی ہندو ڈیلیوری بوائے کو بھیجا جائے۔
یہ معاملہ صرف سوئگی ہی نہیں بلکہ ایک اور فوڈ ڈیلیوری کمپنی زوماٹو کو بھی ایسے ہی کسٹمرز کا سامنا کرنا پڑا۔
اس وقت زوماٹو کے سی ای او اور بانی دیپندر گوئل نے ٹویٹ کیا تھا کہ "ہمیں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے معزز صارفین اور شراکت داروں پر فخر ہے، ہماری اقدار کی راہ میں آنے والے کسی بھی کاروبار کو کھونے کا ہمیں افسوس نہیں ہوگا”۔
سوئگی اور زوماٹو دونوں حیدرآباد کے مشہور فوڈ ایگریگیٹرز ہیں۔ ہزاروں لوگ خاص طور پر دوسرے اضلاع سے تعلق رکھنے والے تکنیکی ماہرین ان دونوں کے کسٹمرز میں شامل ہیں، اپنے کھانے کے لیے ان ایگریگیٹرز پر انحصار کرتے ہیں۔
ایسے میں چند صارفین کی اس طرح کی حرکتوں سے نہ صرف شہر میں کاروبار کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ ان حرکتوں سے تنازعات بھی پیدا ہوتے ہیں جو شہر میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔