ریاست اترپردیش کے ضلع مرادآباد کے تھانہ چھجلوٹ علاقے کے دولہے پور گاؤں میں واقع ایک گھر کے اندر اجتماعی نماز ادا کرنے پر 26 افراد کے خلاف درج مقدمے کو خارج کردیا گیا۔ کیس کی جانچ ایس ایس پی نے سی او کانتھ کو سونپی تھی۔ سی او نے معاملے کی تفتیش کی اور تحقیقاتی رپورٹ کے بعد پولیس نے کیس کو خارج کر دیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے نماز ادا کرنے کو لے کر کیس درج کرایا تھا، جانچ کے بعد معلوم ہوا کہ یہ کیس بالکل بے بنیاد ہے اور اسی بنیاد پر کیس کو بند کر دیا گیا ہے۔
مرادآباد پولیس نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل کے ذریعے یہ اطلاع شیئر کی ہے، جس کے بعد ایس ایس پی ہیمنت کٹیال نے جانکاری دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملہ کی جانچ سی او کانٹھ نے کی ہے، جس میں واقعہ ثابت نہیں ہوسکا، جس کی بنیاد پر کیس کو خارج کردیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ مراد آباد کے دلہے پور گاؤں میں مسلمانوں نے ایک گھر میں اجتماعی طور پر نماز ادا کی جس پر ہندو مذہب کے لوگوں کو اعتراض ہوا اور انہوں نے تھانہ میں ایف آئی آر درج کرائی تھی۔
بتایا جارہا ہے کہ گاؤں میں کوئی مندر نہیں ہم لوگ دوسرے گاؤں پوجا کرنے جاتے ہیں ہم نہیں چاہتے ہیں کہ گاؤں میں کوئی نئی روایت شروع ہو۔ اس حوالے سے مقامی پولیس اسٹیشن میں 16 نامزد اور 10 نامعلوم کے خلاف شکایت درج کی گئی ہے۔ ایس پی دیہات سندیپ کمار مینا نے کہا کہ اس پورے معاملے کی جانچ کا حکم دیا گیا ہے۔
معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے فوری کارروائی کی گئی ہے۔ ماحول خراب کرنے اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے سلسلے میں کیس درج کیا گیا ہے۔ جانچ کی کارروائی جاری ہے۔ واضح رہے کہ اس گاؤں میں اس سے پہلے بھی دو مذہب کے ماننے والوں میں کشیدگی کا ماحول گرم ہوگیا تھا لیکن انتظامیہ نے دونوں فریق کو سمجھا کر صلح کرائی تھی۔
اسی معاملے میں مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے کہا کہ یو پی میں اب گھر میں نماز ادا کرنا بھی جرم بن گیا ہے۔
واضح رہے کہ ملک کے مختلف علاقوں بالخصوص اترپردیش میں عوامی مقامات پر نماز ادا کرنے پر فرقہ پرست عناصر کی جانب سے کافی ہنگامہ برپا کیا گیا، لکھنو کے لولو مال میں نماز ادا کرنے کو کافی اچھالا گیا اور یہ معاملہ کئی دنوں تک سرخیوں میں رہا۔ گھورکھپور میں ایک بزرگ شخص کے آفیسر کی سرکاری رہائش گاہ کے باہر نماز ادا کرنے پر بھی ہنگامہ کیا گیا۔