ملک بھر میں 15 اگست 2022 عیسوی کو ہمارا وطنِ عزیز ہندوستان حکومت برطانیہ کی تقریباً دو سو سالہ طویل غلامی سے آزادی حاصل کرنے کی 75 ویں سالگرہ کی تقریب منائی جارہی ہے۔ حکومت نے اس مبارک موقع کو ”آزادی کا امرت مہوتسو(جشن)“ کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے۔
” تیری اک مشت خاک کے بدلے
لوں نہ ہر گز اگر بہشت ملے“۔
ہندوستان کے معروف شاعر الطاف حسین حالی کی مشہور نظم ’حبِ وطن‘ سے اخذ کئے گئے مندرجہ بالا شعر نے اچھی طرح واضح کردیا ہے کہ ’حب الوطنی‘ اصل میں کیا چیز ہے اور کسی عاقل و باشعور انسان کی زندگی میں وطن کا کیا مقام ہوسکتا ہے۔ یوں تو بے عقل و بے شعور انسان بھی اپنے وطن کی محبت کے جذبات سے خالی نہیں ہوتے، کیوں کہ اس حقیقت کا مشاہدہ ان کی مختلف حرکات و سکنات سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ بس عقل و شعور کے عوامل سے محروم ہونے کی وجہ سے ایسا کوئی شخص اپنے دل کی کیفیات اور جذبات کا اظہار کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ انسان تو پھر بڑی چیز ہے، اللہ تعالیٰ نے حیوانات کو بھی حب الوطنی کے جذبہ کے بغیر تخلیق نہیں کیا ہے۔ اس پس منظر میں غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مذکورہ شعر نے وطن کی اہمیت و معنویت کو واضح کرنے کی سمت میں کتنا زیادہ بیش قیمتی کارنامہ انجام دیا ہے۔
ماں سے محبت کے فطری جذبات کی طرح ہی اپنے وطن سے محبت بھی سر تا سر دل کی کیفیت کا معاملہ ہے، گویا کہ حب الوطنی ہماری سیرت کا ایک فطری اور کبھی جدا نہ ہونے والا بنیادی حصہ(integral part) ہے۔ دوسرے الفاظ میں خالقِ کائنات نے ایسا کوئی دل نہیں بنایا جس کو اپنے وطن کے تئیں محبت کی روشنی اور خوشبو سے عاجز چھوڑ دیا گیا ہو۔ ان حقائق کے پیش منظر، کسی بھی شخص کو اپنے وطن کی محبت سے عاری سمجھ لینا، خود سمجھنے والے کے متعلق کم عقلی کی دلیل ہے۔
دل میں مکین محبت کے جذبات و احساسات کا پرتو (reflection) اگر ہماری صورت سے بھی عیاں ہو جائے تو کیا کہنے۔ دل کی گہرائیوں میں پیدا ہونے والی محبت کی لہروں اور موجوں کے نقوش کو مختلف رنگ و مہک اور جہت و پرواز کی سکت دینے کی غرض سے ہی یوم پیدائش اور سال گرہ جیسی تقریبات اور مختلف صورتوں میں جشن منانے کی رسومات وجود میں آئی ہیں اور بین الاقوامی سطح پر انسانی ثقافت(culture) کا اٹوٹ حصہ بنی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جہاں انسان کی تخلیق میں اپنی ماں اور اپنے گھر (وطن) کی محبت کے داعیات ودیعت کئے ہیں، وہیں اس کی شخصیت کو مزید دل کشی اور دل فریبی عطا کرنے کے لیے حسِ جمالیات(aesthetic sense) سے بھی مزین کردیا ہے۔ انسانی شخصیت کو حاصل یہی حسِ جمالیات وقتاً فوقتاً مختلف جشن اور تقریبات کی صورت میں ظہور پزیر ہوتا رہتا ہے۔
انسانوں کی طرح قومیں (nations) بھی حسن و جمالیات کے ذوق و شوق سے خالی نہیں ہوتیں۔ دراصل، قومیں افراد کی انفرادیت کا ہی اجتماعی ظہور ہوتی ہیں، اس لیے وہ اپنے ذوق و شوق کے اظہار سے کس طرح محروم رہ سکتی ہیں۔
15 اگست 2022 عیسوی کو ہمارا وطنِ عزیز، ”ہندوستان میری جان، میری پہچان“ حکومت برطانیہ کی تقریباً دو سو سالہ طویل غلامی سے آزادی حاصل کرنے کی 75 ویں سال گرہ کی تقریب منا رہا ہے۔ ہماری حکومت نے اس مبارک موقع کو ”آزادی کا امرت مہوتسو(جشن)“ کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے.
اس درمیان، جشن آزادی کو ہمہ جہتی بنانے، دنیا کی نظروں میں اپنی حب الوطنی کے لامتناہی جوش و خروش اور پورے ملک کی سطح پر تمام شہریوں کی اجتماعیت، قومی یکجہتی(national integration) اور اجتماعی قوت کے اظہار کے لیے ”ہر گھر ترنگا “ ابھیان (مشن) بھی شروع کیا جارہا ہے۔ اس پروگرام کے تحت، یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ہندوستان کی شان ’ترنگا‘(The Tricolour) کے نام سے معروف اپنے قومی جھنڈے (national flag) کو 13 اگست سے ملک بھر کے مکانوں کی چھتوں پر نصب کیا جائے گا، تاکہ ہر چھوٹے بڑے گھر کی زینت دو بالا ہونے کے ساتھ ساتھ، ملک میں ہر طرف ’ترنگے سمندر‘ کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سماں پیش کیا جاسکے اور ملک کا ہر باشندہ آزادی کی خوشبو اور خوشیوں کے اس سمندر سے اٹھنے والی موجوں سے لطف اندوز ہونے کا احساس اور اعتماد حاصل کرسکے۔
حالاں کہ ’امرت مہوتسو‘ کے نام سے معروف، ملک کی آزادی کے 75سال مکمل ہونے کی خوشی کے جشن کی شروعات ایک سال قبل ہی ہوچکی تھی، مگر جیسے جیسے 15 اگست کی تاریخ قریب تر ہوتی جارہی ہے، ملک کے طول و عرض میں مختلف صورتوں میں بڑے پیمانے پر جشن منانے کے متفرق اطوار وضع کئے جانے اور متعدد پروگرام مرتب کئے جانے کی کاوشیں اپنے شباب کو چھوتی ہوئی نظر آنے لگی ہیں۔ ہندوستان کے تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ، صحافتی اور دیگر علمی اداروں کے علاوہ زندگی کے تمام دوسرے شعبہ جات میں جشن آزادی کی سرگرمیاں اپنی اپنی نوعیت کے موسم بہار سے ہم کنار ہیں۔ تقریباً سبھی شعبے اور ادارے اپنی اپنی دلچسپی اور رجحانات کے مطابق مضمون نگاری، پینٹنگ، فوٹوگرافی اور اسپورٹس وغیرہ یا ملتے جلتے اور مختلف میدان میں الگ الگ قسم کے مقابلوں (competitions) کا انعقاد کرتے ہوئے رنگارنگ سرگرمیوں سے وابستہ نظر آرہے ہیں۔
ماں کی نسبت سے اپنے ملک یا وطن کو ’مادر وطن‘ (Motherland) سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ وطن کا لفظ اگر جائے پیدائش کے لیے بولا اور سمجھا جاسکتا ہے تو جائے رہائش کے لیے استعمال کرنا بھی اتنا ہی موزوں ہے۔ اپنے وطن عزیز سے محبت صرف انسانوں کا ہی معاملہ نہیں ہے، بلکہ الفت و قربت کے یہ احساسات چرند و پرند جیسی دوسری مخلوقات میں بھی پوری شدت کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ انسان ہی سفر سے گھر واپس نہیں لوٹتے، شام کے وقت چرند و پرند بھی اپنے ٹھکانوں کی طرف واپسی کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ سورج غروب ہونے کے آس پاس، شہر کے باہر مختلف چڑیاں اپنی دن بھر کی مصروفیات سے فارغ ہوکر اپنے گھر اور عیال کی سمت فضا میں قطار در قطار واپسی کرتی ہوئی آنکھوں کے ذریعے دل کو مسرور و مطمئن کرنے والا نایاب منظر پیش کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ چڑیوں کے گھر لوٹنے کا یہ نظارہ اتنا دلکش اور پرکیف ہوتا ہے کہ اس کا ثانی تلاش نہیں کیا جاسکتا۔
اپنی تحریر کو مزید دلچسپ حقائق سے ہمکنار کرنے کے لیے، یہاں جانوروں میں وطن کی محبت سے متعلق ایک بیل (ox) سے وابستہ ایک تاریخی داستان بیان کر دینا مناسب رہے گا۔
قرآن اور اسلامیات کے معروف عالم اور محقق جناب جاوید احمد غامدی صاحب کا ’اسلام میں عورت کا مقام‘ موضوع کے تحت عورتوں کے ایک اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے ایک ویڈیو یوٹیوٹ (YouTube) پر دستیاب ہے۔
’اسلام میں عورتوں کی گواہی‘ عنوان کے تحت ایک سوال کا جواب دیتے وقت، معاشرے میں پھیلی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش میں محترم غامدی صاحب پاکستان کی عدلیہ کے پرانے ریکارڈ میں درج ایک مقدمے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ متعلقہ جج صاحب نے ایک بیل کی گواہی قبول کرتے ہوئے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔
واقعہ کچھ اس طرح سے ہے کہ ایک گاؤں کے چودھری نے ایک غریب کسان کا ایک تندرست و توانا ہیل غصب کر لیا۔ بات عدالت تک پہنچ گئی۔ چودھری نے اپنے حق میں گواہی دینے کے لیے بہت سے گواہ پیش کر دیے کہ بیل اسی کا ہے۔ چودھری کے مقابل غریب کسان کے حق میں گواہی دینے کے لیے کوئی تیار نہ تھا، اس لیے، اس نے جج صاحب سے درخواست کی کہ وہ اپنا بیان تو درج کروا سکتا ہے مگر کوئی گواہ پیش نہیں کرسکتا۔ کسان کے بیان سے جج صاحب کو اندازہ ہوگیا کہ بیل کسان کا ہی ہے، لیکن فیصلہ سنانے کے لیے انہوں نے گائوں جانے کا فیصلہ کیا۔ کسان سے بات کرتے وقت جج صاحب کو یہ بھی معلوم ہو گیا تھا کہ مذکورہ بیل کی پرورش کسان کے گھر پر ہی ہوئی ہے۔ گاؤں پہنچ کر جج صاحب نے متعلقہ بیل کو ان کے سامنے پیش کرنے کے لیے کہا اور بیل کی حاضری کے بعد اس کو آزاد چھوڑ دینے کا حکم صادر کر دیا۔ مختصر وقفہ کے بعد جب بیل کے متعلق معلومات حاصل گئیں تو معلوم ہوا کہ بیل اپنے اصلی مالک (کسان) کے گھر پر موجود ہے۔ اس طرح جج صاحب نے بیل کی گواہی کو تسلیم کرتے ہوئے، فیصلہ کسان کے حق میں سنا دیا۔ بیل کی گواہی گویا اس کی حب الوطنی کی کھلی دلیل تھی۔
اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ میرا وطن ہندوستان میری جان ہی نہیں، میری پہچان بھی ہے۔ شاید ہی کوئی بد نصیب ہوگا جس کو اپنے وطن سے والہانہ محبت نہ ہو۔ کسی انسان کی زندگی میں ایسا ہونا تب ہی ممکن ہے جب اس نے ’ارادہ و اختیار‘ کی طاقت سے اپنے جذبہ حب الوطنی کو مسخ کردیا ہو، مگر افسوس، ایسا کرنے کے بعد وہ شرف انسانیت سے بھی محروم ہوکر رہ جاتا ہے۔
جس طرح ہندوستان میری پہچان ہے، اسی طرح ہندوستان خود اپنی مخصوص پہچان کی انفرادیت کے لیے بھی دنیا بھر میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ دنیا کے نقشے میں اس کی جائے وقوع، اس کی آب و ہوا، اس کے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کی انفرادیت، سمندر اور پہاڑوں سے اس کی وابستگی اور اسی کے ساتھ جنگل، جھیل، ندی- نالے یہاں تک کہ ریگستان کے وجود نے ہندوستان کو گویا الگ ایک مکمل دنیا بنادیا ہے۔ گوناگوں خصوصیات کے مالک ہمارے حسین ملک کو نہ صرف دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت (democracy) ہونے کا شرف حاصل ہے، بلکہ قومی اتحاد اور رواداری کی گنگا – جمنی تہذیب کے لیے بھی تمام ممالک کے درمیان اس کا ایک منفرد مقام ہے۔ یہاں کے سبھی شہریوں کا بھائی بھائی کی طرح رہنا میرے وطن کی سب سے بڑی دھروہر ہے، اور تہذیب و تمدن کا یہی استثنا میرے دل کے بہت قریب ہے۔ اللہ تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ اخوت و بھائی چارے کی اس کیفیت اور حیثیت کو دوام حاصل ہو۔
”ہندو مسلم سکھ عیسائی
آپس میں سب بھائی بھائی“
نوعیت کی ہماری صدیوں پرانی تہذیب اور آپسی بھائی چارہ کی روایات کے دم پر ہی یہ ممکن ہوسکا کہ اس وقت دنیا کی طاقتور ترین حکومتِ برطانیہ کو ہمارے بے مثال قائد، بابائے قوم (The Father of the Nation)، مہاتما گاندھی کی سرپرستی میں ہمارے لا ثانی اتحاد کے سامنے ”سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا“ چھوڑ کر جانے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔
ہندوستان میں کئی سو سال پر محیط دلی سلطنت اور مغلیہ حکومت کی نوعیت کے برعکس، انگریزی حکومت ہندوستان اور ہندوستانیوں کے لیے نہیں تھی، بلکہ برطانیہ اور انگریزوں کی فلاح و بہبود اس کا بنیادی مقصد تھا۔ اس لیے، سن 1857ء کی جنگ آزادی سے لے کر تحریک آزادی تک اور تحریک آزادی سے لے کر سچ مچ آزادی حاصل ہوجانے تک انگریزوں نے ”تفرقہ ڈالو اور حکومت کرو“ (Divide and Rule) کے اپنے محبوب فارمولے کو استعمال کرنے میں کوئی کور کسر باقی نہیں رکھی تھی۔ بھلا ہو ہندوستانی شہریوں، خصوصاً ہندو اور مسلمانوں کے بے نظیر اتحاد کا جس کے سامنے ان کی ایک نہ چلی۔ نتیجتاً، ہندوستان چھوڑ کر جانے میں ہی انگریزوں کو عافیت نظر آئی۔
اس طرح، 15اگست 1947ء کا مبارک دن(جمعہ) غیر ملکی تسلط سے ہماری آزادی کا پہلا دن قرار پایا۔ اسی سنہرے دن کی 75 ویں سالگرہ کو پر شِکوہ جشن (celebration) کے طور پر منانے کے لیے ملک میں ہر طرف رعنائیاں اور خوشیوں کی آمد آمد ہے۔
ہر قسم کی تفریق سے بالا تر تمام ہم وطنوں کے لیے ”آزادی کے امرت مہوتسو“ کی دلی مبارک باد!
ہم سب کو جشنِ آزادی کی موجودہ چمک دمک سے وابستہ مصروفیات میں سے کچھ لمحاتِ فکر یہ محفوظ کرلینے کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ اپنے ملک کی فلاح و بہبود اور ترقی یافتہ دنیا کے حوالے سے کی جانے والی مزید تعمیر و ترقی کو یقینی بنانے کے لیے گہری غور فکر کی جا سکے۔ سب سے زیادہ قابل توجہ جو بات ہے وہ یہ ہے کہ تحریک آزادی کے دوران ہمارا سابقہ برطانیہ کی ایک ایسی سلطنتِ عظمیٰ سے تھا جہاں کبھی سورج بھی غروب نہیں ہوتا تھا۔ مگر اس کے مقابل ہندوستان کا قومی اتحاد و یکجہتی بھاری ثابت ہوئے۔
ملک کو تحریک آزادی کے زمانے میں حاصل شدہ بے پناہ نوعیت کے اتحاد و یکجہتی کی پھر ضرورت پیش آگئی ہے۔ ہمیں خود کو دنیا کی تعریف (definition) کے مطابق ترقی یافتہ بنانے کے ساتھ ساتھ، ’وشوگرو‘ (mentor of the world) کی حیثیت میں دنیا کو رہنمائی اور لیڈرشپ فراہم کرنے کے لیے بہت بڑے پیمانے پر نت نئی جدوجہد اور چیلینج درپیش ہیں۔ ہمارے شہریوں میں علم دوستی اور محنت کشی کے داعیات ہندوستان کو ’وِشوگرو‘ کے مقام تک رسائی حاصل کرنے کو یقینی بنا سکتے ہیں۔
مذکورہ ہدف کی سمت میں کئے جانے والے سفر کو مندرجہ ذیل شعر میں پوشیدہ کیفیت آسان بنا سکتی ہے:
“ناقوس سے غرض ہے نہ مطلب اذاں سے ہے،
مجھ کو اگر ہے عشق تو ہندوستاں سے ہے“۔