تمام صحابہ کرامؓ کا اسوہ امت مسلمہ کیلئے مشعل راہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اور دین اسلام قیامت تک باقی رہنی ہے۔ لہٰذا سیرت طیبہ اور اسوہ صحابہ کرامؓ پر عمل کر کے ہی امت مسلمہ غلبہ حاصل کرسکتی ہے اور دونوں جہاں میں کامیاب ہوسکتی ہے۔
بنگلور: (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے ہفت روزہ عظیم الشان آن لائن ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ کی چوتھی نشست سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے رکن شوریٰ حضرت مولانا مفتی محمد شفیق احمد صاحب قاسمی مدظلہ نے فرمایا کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت وعقیدت اہل سنت والجماعت کے نزدیک اصول ایمان میں سے ہے۔
انبیاء علیہم السلام کے بعد انسانوں میں جس جماعت کو اللہ رب تعالیٰ کے یہاں سب سے زیادہ قرب حاصل ہے، وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ کرام ؓ کی مقدس وبابرکت جماعت ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ حضرات صحابہ کرامؓ اس پوری کائنات میں وہ خوش قسمت جماعت ہیں، جن کی تعلیم و تربیت اورتصفیہ و تزکیہ کے لیے سرورِ کائنات محمد رسول اللہﷺ کو معلم، مربی اور استاذ مقرر کیا گیا، ان حضرات نے براہ ِراست صاحبِ وحی ؐسے دین کو سمجھا، دین پر عمل کیا اور اپنے بعد آنے والی نسل تک دین کو مِن و عَن پہنچایا۔
مولانا نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہؓ کے ایمان کو معیار قرار دیا۔ مولانا نے فرمایا کہ صحابہؓ کے مستند و معیار حق ہونے پر اس سے بڑی کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ اللہ پاک نے انہیں دنیا ہی میں اپنی رضا کا پروانہ عطا فرمادیا اور جنت و مغفرت کی بشارت سنادی۔
انہوں نے فرمایا کہ حضراتِ صحابہؓ کے ایمان کو معیارِ حق قرار دیتے ہوئے نہ صرف لوگوں کو اس کا نمونہ پیش کرنے کی دعوت دی گئی، بلکہ ان حضرات کے بارے میں لب کشائی کرنے والوں پر نفاق و سفاہت کی دائمی مہر ثبت کردی گئی۔ چنانچہ حضرت صحابہ کرامؓ کی محبت عین رسول اللہؐ کی محبت اور ان سے بغض عین رسول اللہؐ سے بغض کے مانند ہے۔ لہٰذا ان پر زبانِ تشنیع دراز کرنے کا حق اُمت کے کسی فرد کو حاصل نہیں۔
مولانا نے حضرات صحابہ کرامؓ کے جذبہئ دعوت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ صحابہ کرامؓ اسلام کے عالمگیر اور آفاقی پیغام کے داعی اور علمبردار تھے اورعالمی اسلامی برادری کے اولین قائد تھے۔ دعوت ان کی زندگیوں کا مشن تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ قرآن مجید کی تعلیمات، رسول اللہؐ کے ارشادات اور اسوۂ رسولؐ کی رہنمائی کا نتیجہ تھا کہ صحابہ کرامؓ گہرا شعور رکھتے تھے کہ ایمان لانے کے بعد ان کی ذمہ داری اپنی ذات اور اہل وعیال تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ اسلام سے محروم بھٹکی ہوئی انسانیت تک اسلام کی دعوت پیش کرنا اور انہیں جہنم کی آگ سے بچانا ایمان کا بنیادی تقاضا ہے۔
مولانا نے فرمایاکہ صحابہ کرامؓ نے تجارت، مختلف ہنر و صنعت، پیشوں اور ملازمتوں کو اختیار فرمایا تھا لیکن اپنی داعیانہ حیثیت اور فریضۂ دعوت کی ادائیگی سے وہ کبھی غافل نہیں رہے۔ ان کے دماغوں میں ہمیشہ یہی دھن سوار رہتی تھی کہ خدا کے بندوں کو اللہ کی خالص اور کامل بندگی کی راہ پر کیسے لے آئیں۔ مولانا نے فرمایا کہ ان کی دعوتی جدوجہد میں جہاں انسانوں کو اللہ کی بندگی کے دائرے میں لانا اور جھوٹی وخودساختہ بندگیوں سے نجات دلانا شامل تھا وہیں اسلام کے نظام کو قائم کرنا بھی تھا۔
مولانا نے فرمایا کہ صحابہ کرامؓ کے اندر فریضۂ دعوت کی ادائیگی اور بندوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کا بے پناہ جذبہ پایا جاتا تھا۔ انھوں نے دعوت اور جہاد کے راستے پر چل کر بہت بڑی بڑی قربانیاں دیں جن کا ہم آج تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ان کی بے مثال قربانیوں اور عظیم دعوتی کوششوں کے نتیجے میں توحید اور دین اسلام کے نور سے کفر، شرک اور الحاد کی گھٹا ٹوپ ظلمتیں مٹ گئیں۔
مولانا نے فرمایا کہ انہیں نفوس قدسیہ کی محنت اور قربانیاں ہیں کہ آج ہم تک یہ دین پہنچا ہے- مفتی صاحب نے فرمایا کہ تمام صحابہ کرامؓ کا اسوہ امت مسلمہ کیلئے مشعل راہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اور دین اسلام قیامت تک باقی رہنی ہے۔ لہٰذا سیرت طیبہ ؐاور اسوہ صحابہ کرامؓ پر عمل کر کے ہی امت مسلمہ غلبہ حاصل کرسکتی ہے اور دونوں جہاں میں کامیاب ہوسکتی ہے۔
قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر دارالعلوم دیوبند کے رکن شوریٰ حضرت مفتی محمد شفیق احمد قاسمی صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور عظیم الشان ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ منعقد کرنے پر مبارکبادی پیش کی۔