مسلمانوں کی بقاء کا مسئلہ
حالات حاضرہ

مسلمانوں کی بقاء بہوجن تحریک سے جُڑ جانے میں ہے

مسلمان بادشاہوں کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے ہندو دھرم کے معاملات کو مکمل برہمن کے حوالے کردیا۔ چونکہ اسلام میں دوسرے مذاہب میں مداخلت کی اجازت نہیں ہے، اس لئے ہندو سماج کی مکمل پیشوائی صرف برہمنوں کے ہاتھوں میں تھی، وہی تھے جو ہزاروں ذاتوں سے مکمل واقفیت رکھتے تھے اور ان کے عقیدے کا حصہ تھے۔ اس کے علاوہ درباروں میں پہنچ اور تعلقات بنائے رکھنے کا فن برہمن اچھی طرح جانتے تھے اس لئے مسلمان بادشاہوں نے ہمیشہ برہمن پر ہی اعتماد کیا، اور ہندوؤں کے تمام معاملات کو ان کے حوالے کردیا۔

برہمن نے شودوروں پر کتنے ظلم کئے، اِس کو ڈاکٹر امبیڈکر، مہاتما پھولے جیسے کئی لوگوں نے بے نقاب کیا ہے۔ لیکن برہمن دنیا کی چالاک ترین قوم ہے۔ اس نے انتہائی عیاری کے ساتھ مسلمان بادشاہتیں ختم ہونے کے بعد اپنے خود کئے ہوئے سارے ظلم مسلمان بادشاہوں کے اکاؤنٹ میں ڈال دیئے اور بہوجنوں کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہوگئی کہ مسلمان ظالم تھے، ہندوؤں کے قاتل تھے، مندروں کو لوٹتے تھے وغیرہ۔

ہندوستانی مسلمان سعودیوں، ایرانیوں اور تمام مسلمان ممالک کے مسلمانوں سے کہیں زیادہ خوش نصیب اس لئے ہیں کہ ہمیں ابراہیمۂ کے مماثل دور میں پیدا کیا گیا، جہاں قدم قدم پر بت خانے اور انسانوں کی پرستش کے مظاہر ہیں۔ ہماری پیدائش کا مقصد ہی سنّتِ ابراہیمی کا احیا تھا۔ لیکن مغل ہوں کہ خلجی، تغلق ہو کہ نظام کبھی کسی کے دور میں مسلمانوں کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ ان شودروں کو دین پہنچاتے۔ انہیں برہمن کے ظلم سے آزاد کرکے اللہ کے آگے برابر کے بندے بناتے۔

وہ دور جا چکا جب ہمارے بزرگ نصیحت کرتے تھے کہ بہوجنوں کو ساتھ لے کر چلو۔ وقت کسی کے لئے ٹھہرتا نہیں ہے۔ اب یہ دور ہے کہ اگر مسلمان ہندوستان میں اپنی بقا چاہتے ہیں تو انہیں بہوجنوں کے ساتھ چلنا پڑے گا۔ ان میں شامل ہوکر ان کی طاقت کو بڑھانا پڑے گا۔ کیونکہ انہوں نے بھی ہمارا ساتھ دیا تھا۔ 1857 کی جنگِ آزادی جس کی قیادت مسلمان علماء نے ہی کی تھی، ساتھ دینے والے یہی بہوجن تھے۔ لیکن اس کے بعد جب انگریز نے پہلے ہندو اور مسلمان کو بانٹ دیا، اور اس کے بعد مسلمانوں کو بریلوی اور دیوبندی میں بانٹا، تو ہندو تو سارے بہوجنوں کو لے کر آزادی کی جنگ میں لگ گئے۔

مسلمان، مسلکوں کی جنگ میں اس قدر منہمک ہوگئے کہ ملکی سیاست، معیشت، ایجوکیشن اور ترقی مسلمانوں کے موضوعات ہی نہیں رہے۔ اور نہ آج ہیں۔ اگر ہیں بھی تو صرف اخبارات کے صفحات پر تبصروں کی حد تک۔ کیا بہوجن ہمارا انتظار کرتا رہتا؟ زوالِ حیدرآباد یا زوالِ دہلی سے قبل تلک بہوجن ہمارا ماتحت بھی تھا، مرعوب بھی۔ اگر اُس وقت اسے دین کی دعوت دی جاتی تو وہ منو واد کو ٹھکرا کر شائد آج ہمارے ساتھ ہوتا، لیکن بدقسمتی سے ہمارا رویہ اس کے ساتھ تو وہی رہا جو رویہ برہمن کا تھا۔ اب جب کہ وقت بہت آگے نکل چکا ہے۔ تاریخ کے اسباق کو تبدیل کرکے مسلمانوں کی تاریخ کو مکمل مسخ کردیا گیا۔

بہوجن کی نئی نسلیں مسلمانوں کی تاریخ یا اسلام سے قطعی واقف نہیں ہیں، اب وہ خود اپنی بقا کی جنگ لڑرہی ہیں۔ جیسے کہ آزادی کے بعد ڈاکٹر امبیڈکر اورپیرئیر کی تقاریر میں ملتا ہے کہ ”آزادی تو برہمن کو ملی ہے، شودر تو غلام ہی ہیں“۔ مسلمانوں سے زیادہ ظلم ان پر ہوئے ہیں، آج بھی ہورہے ہیں۔ ہم تو صرف اپنی مسجدوں اور قبرستانوں کا رونا روتے ہیں، ان کے قتل ہوتے ہیں، عورتوں کی عصمت ریزیاں ہوتی ہیں، انہیں مندروں میں نہیں آنے دیا جاتا۔ رام ناتھ کووِنڈ کو صدر جمہوریہ ہونے کے باوجود ایک نچلی ذات کا ہونے کی بنا جگنّاتھ کے مندر میں داخل ہونے نہیں دیا جاتا، آج بھی ان کو اعلیٰ ذات کے پانی کے کنوؤں سے پانی لینے نہیں دیا جاتا۔ اگر کوئی آدمی اعلیٰ ذات کی لڑکی سے شادی کرلے تو اس کو قتل کردیا جاتا ہے۔

مسلمانوں کی یہ شکایت تو بجا ہے کہ مسلم کش فسادات میں قتل و غارتگری اور لوٹ مار کرنے والے یہی بی سی، ایس سی اور ایس ٹی ہوتے ہیں۔ لیکن بہوجنوں کی بھی تو یہ شکایت ہے کہ برہمن نے صدیوں اُن پر اتنے ظلم کئے کیا عام مسلمانوں نے کبھی آگے بڑھ کر ان کی دفاع کی؟ اسلام تو سب سے پہلے مساوات اور انصاف کے لئے جنگ لڑتا ہے، مسلمان نے ہمیشہ اپنے لئے انصاف کا مطالبہ کیا، لیکن کیا کبھی دلتوں، آدی واسیوں وغیرہ کے حق میں بھی سڑکوں پر نکل کر ان کا ساتھ دیا؟ اس لئے اب ہر بی سی، ایس سی، ایس ٹی اپنی اپنی ذات کے حقوق کی جنگ لڑرہا ہے۔ کامیاب بھی ہورہا ہے، کیونکہ ان کے لیڈر جب بھی آواز دیتے ہیں، جیسے امبیڈکر، کانشی رام، لالو، وامن میشرم، مایاوتی، ملائم وغیرہ، وہ لوگ ان لیڈروں کی آواز پر سڑکوں پر اتر آتے ہیں۔

آریس یس اُن ذاتوں میں بھی ابھرتی ہوئی لیڈرشپ کو ختم کرنے وہ ساری چالیں چلتی ہے جو آج پاپولرفرنٹ آف انڈیا کے خلاف چل رہی ہے۔بی جے پی جیسی جتنی سنگھی پارٹیاں ہیں، ان میں سارے اسی آریس یس کے تربیت یافتہ فاشسٹ ذہن کے لوگ ہیں جو سیاست، میڈیا، ایجوکیشن، اڈمینسٹریشن اور عدلیہ پر مکمل قبضہ کرچکے ہیں۔ اگرچہ کہ آریس یس پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور ہے، وہ اپنے مخالفین کو ای ڈی، یاپولیس اور میڈیا کے ذریعے ختم کرواسکتی ہے، یا پھر اودے ٹھاکرے کی طرح کسی کو بھی پاؤر سے ہٹا سکتی ہے، لیکن اس کے باوجود جس تیزی کے ساتھ برہمن واد کے خلاف بغاوت کی لہریں اٹھ رہی ہیں، دلت، سکھ، لنگائی، بوڈو علی الاعلان کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ہندو مت کہئے ہم ہندو نہیں ہیں۔ بی سی میں بھی دو گروپ ہیں۔ ایک برہمنوں کا وفادار ہے، دوسرا گروہ سخت مخالف۔ یہ سارے لوگ مسلسل کسی نہ کسی پلیٹ فارم پر جمع ہوکر ہر روز عوام کا ذہن بدلنے کے کام میں مسلسل لگے ہوئے ہیں، لیکن ان کی اِن کاوشوں میں مسلمان دور دور تک نہیں ہیں۔

اگرچہ کہ ان تمام گروہوں کی کوئی تقریر آریس یس یا برہمن کو گالی دیئے بغیر مکمل نہیں ہوتی، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ان تمام گروہوں کے ذہنوں میں مسلمانوں اور اسلام کا تعارف وہی بسا ہوا ہے جو تعارف پچھلے ایک سو سال میں آریس یس نے ان کے دماغوں میں بٹھایا ہے۔ یہ بہترین وقت تھا جب مسلمان بہوجنوں کے قریب ہوتے، چونکہ ان کا اور ہمارا دشمن ایک ہی ہے، ہم انہیں سمجھاتے کہ اگر ہم مل ایک دوسرے کا ساتھ دیں تو آج بھی بہوجنوں کا راج قائم ہوسکتا ہے۔

لیکن مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ پہلے بہوجن اسلام قبول کرلیں، پھر وہ ان کا ساتھ دیں گے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ لوگ بھی اِس نکتہ پر آریس یس کے ساتھ ہوجاتے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ مسلمان پہلے اپنا پریورتن کرلیں پھر وہ مسلمانوں کا ساتھ دیں گے۔ دعوت و تبلیغ کا مرحلہ ثانوی ہے، پہلے مرحلے پر مدعو سے دوستی، اس کی غمخواری، اور اس کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر انصاف قائم کرنے کی جنگ میں شریک ہونا لازمی ہے۔برہمن دھرم کی جنگ لڑرہا ہے۔ بہوجن دھرم کی نہیں بلکہ مساوات اور انصاف کی جنگ لڑرہا ہے۔

برہمن اور اس کے ہمنوا اعلیٰ ذاتیں ساری ملا کر 7% سے زیادہ نہیں جب کہ بہوجن 93% ہیں۔ اب بھی کچھ نہیں گیا۔ بہوجنوں کے دماغوں میں بٹھائے گئے زہر کو نکالنے کا پہلا مرحلہ یہی ہے کہ بہوجن سماج کے ساتھ پہلے گھل مل کر محلے اور شہر کی سطح پر زیادہ سے زیادہ بہوجنوں تک پہنچ کران لوگوں کومسلمانوں کے وجود کا احساس دلایئے۔ یہ تجربہ ہم نے کیا ہے، اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بہوجن سماج اس وقت ہمارا منتظر ہے۔وہ دل کھول کر ہمارا استقبال کررہے ہیں۔ وہ صحیح دین کی تلاش میں ہیں۔ ان کو دھرم سے نفرت ہے اس لئے کہ ان کا صدیوں سے صرف دھرم کے نام پر استحصال کیا گیا۔

وہ اب صرف پاؤر چاہتے ہیں۔ آپ پاؤر میں حصہ مانگنے کی نیت سے ان کے قریب مت جایئے، کیونکہ قیادت آپ کا منصب ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل کر رہے گی، ”انّی جاعلک للناس اماماً“ یعنی میں بے شک تمہیں تمام انسانوں کی امامت عطا کروں گا، یہ وعدہ ہمارے ہی لئے ہے، لیکن قیادت یا پاؤر حاصل کرنے کی نیت سے کام کرنے سے قیادت نہیں ملتی، یہ تو اللہ تعالیٰ کا انعام ہے، ”تعز من تشاء و تزل من تشاء“۔ آپ ان کو صرف اس نیت سے قریب کیجئے کہ ان کو ایک اللہ کی بندگی سے جوڑ کر انصاف اور مساوات قائم کریں گے۔ موجودہ ہندوستان میں مسلمانوں کی قانونی اور سماجی حیثیت کیا ہے یہ اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے۔

بہوجن کی تعریف

بہوجن کے معنی ہیں اکثریت۔ اکثر مسلمانوں کے ذہن میں بہوجن لفظ کا غلط امیج بیٹھا ہوا ہے۔ بہوجن کے لفظ کے ساتھ ہی ان کے ذہنوں میںبہت ہی غریب، مزدور پیشہ یا حجام، دھوبی، دودھ والے ٹائپ کی قوم کا تصور آتا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ گوتم بدھ نے بہوجن ان کو کہا ہے جو تین اعلیٰ ذاتوں یعنی برہمن، شتریہ او ر ویشیا کے علاوہ ہیں۔ چونکہ برہمن شاستروں میں یہ لکھا ہے کہ مکتی یعنی نجات صرف تین اعلیٰ ذاتوں کے لئے مخصوص ہے، گویا باقی جتنے ہیں شودر ہیں، یہ کتے بلی یا مکھی مچھر کی طرح ہیں، ان کی زندگی اور موت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہ انسانیت کی توہین ہے۔

گوتم بدھ خود کسی مذہب کے نہیں تھے، لیکن ان کا یہ عقیدہ ضرور تھا کہ اگر کوئی خدا ہے تو اس نے تمام انسانوں کو برابری کا پیدا کیا ہے۔ ان کے مطابق ایسا خدا، ہرگز خدا نہیں ہوسکتا جو اپنی ہی تخلیق کو ذاتوں میں تقسیم کرکے کسی کو اعلیٰ اور کسی کو نیچ اور اچھوت پیدا کرے۔ چونکہ یہ تقسیم برہمن نے پیدا کی ہے، اور جو دھرم وہ لے کر آیا ہے، وہ مساوات کا مخالف ہے، اس لئے گوتم بدھ نے ان تین اعلیٰ ذاتوں کے علاوہ جتنے لوگ ہیں انہیں بہوجن کہا ہے۔

حالیہ دور میں کانشی رام نے جو تعریف پیش کی اس پر تمام اتفاق کرتے ہیں وہ یہ کہ تمام BC, SC, ST, Muslims, Christians, Sikhs بہوجن ہیں۔ جمہوری نقطہ نظر سے حکومت صرف بہوجن کا حق ہے، لیکن برہمن نے جس چالاکی سے ذاتوں کا سسٹم بنا کر اکثریت کو مکمل تقسیم کردیا ہے، اور آپس میں ہر ذات کو ایک دوسرے کے مقابل رقیب بناکر خود 7% رہ کر 93% کو غلام بنادیا ہے، ساری حکومت میں تمام اعلیٰ عہدوں پر اپنے آدمی بٹھا کر بہوجنوں کا حق غصب کررہا ہے، جب تک بہوجن راشٹرا قائم نہیں ہوگا، اس وقت تک مساوات اور انصاف قائم نہیں ہوسکتے۔

اِس وقت بہوجنوں کے ہر ہر شہر میں کم سے کم ایک ایک ہزار گروپ کام کررہے ہیں۔یہ تمام امبیڈکر اور پھولے کے نام پر متحد ہیں۔ بہوجن کا کوئی مذہب متعین نہیں ہے۔ چونکہ صدیوں سے وہ اپنے آقاوں کے تیوہار مناتے ضرور ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ ہر بہوجن ہندو ہے۔ جس دن آپ اپنے کردار اور اخلاق کو اپنے قائد ﷺ کی طرح بنالیں گے اُس دن وہ آپ کو اپنا قائد ضرور بنالیں گے، کیونکہ خود پیریئر نے کہا تھا، اور آج بھی کئی اہم دانشور بہوجن یہی کہتے ہیں کہ منوواد کو ختم کرنے اسلام ہی ایک راستہ ہے، جو تمام کو مساوات اور انصاف کے راستے پر متحد کرسکتا ہے۔

کیا مسلمان بہوجن ہیں؟

جی ہاں۔ مسلمان بھی اصلی بہوجن ہیں۔صدیوں پہلے ہمارے آباواجداد نے جب اسلام قبول کیا، اس وقت سارے کے سارے بدھ مت کو ہی ماننے والے تھے۔ یہی اصلی دراوِڈین تھے۔ ان کے اسلام قبول کرنے کی اصل وجہ یہی تھی کہ برہمنزم مساوات کا مخالف تھا۔ دوسرے الفاظ میں گوتم بدھ اور اشوکا کی طرح مسلمانوں نے بھی منوواد سے بغاوت کی۔ اسی لئے برہمن ہمیشہ بدھ، اشوکا اور مسلمانوں کا سخت دشمن رہا ہے۔ مسلمانوں کو حملہ آور اور بیرونی کہہ کر پروپیگنڈا کرنے کے پیچھے بھی یہی راز ہے۔ مسلمانوں کے بعد سکھوں نے، پھر کرسچینوں نے، پھر لنگایت والوں نے، اور اب کئی گروہ منوواد کے خلاف اٹھ رہے ہیں۔

مسلمانوں اور ان تمام بہوجن فرقوں کا DNA ایک ہے۔ان کے آباواجداد، ان کے رنگ، قدوخال، عادات و اطوار، کھانے اور رہن سہن صدیوں سے ایک ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا بتاریخ 21.5.2001 کی ایک رپورٹ کے مطابق تمام بہوجنوں بشمول مسلمانوں کا DNA ایک ہے جبکہ تین اعلیٰ ذاتوں کا DNA یورپین قوموں سے ملتا ہے۔ اس سے مولانا سجاد نعمانی صاحب کی ایک تقریر کی تصدیق ہوتی ہے کہ برہمن بنی اسرائیل کا بارہواں گمشدہ قبیلہ ہے، جو آرین ہے۔ جو یورپ سے نکلا ایران سے ہوتا ہوا ہندوستان پہنچا، مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ کی تحقیق کے مطابق بنی اسرائیل اور برہمنزم کے عقائد، تیوہار اور کئی مذہبی امور ایک ہی جیسے ہیں۔

جس سے پتہ چلتا ہے کہ برہمن ہندوستان سے باہر سے آئے، اور جین اور بدھ مت کے ماننے والوں کا قتل ِ عام کرکے تمام اصلی باشندوں کو غلام بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ ہر ہر قوم تمام انسانوں میں برابری چاہتی ہے، جو برہمن دینا نہیں چاہتا۔ اس نے کاسٹ سسٹم اس قدر مضبوطی سے دماغوں میں بٹھادیا ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے بہوجنوں کو ایک کرنا ناممکن لگتا ہے، بہوجنوں کی اکثریت، کاسٹ کی بنیاد پر ملنے والی مراعات سے محروم ہونے کے خوف سے اسی منوواد سے جڑے رہنے پر مجبور ہے۔

لیکن ان مراعات کا فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد بہوجنوں کی اصلی تعداد کا دو فیصد بھی نہیں، اس لئے کروڑوں بہوجن مساوات کے لئے ایک ہوسکتے ہیں۔ چونکہ مسلمانوں کو دور دور تک کوئی مراعات حاصل نہیں، جتنے اعلیٰ عہدے پھر بھی بی سی، ایس سی، وغیرہ کے پاس ہیں، مسلمانوں کو ان کے مقابلے میں دس فیصد بھی نہیں مل سکے۔ اس لئے مسلمانوں کو اگر ہندوستان میں عزت کے ساتھ اول درجے کے شہری بن کر رہنا ہے تو یہ وقت ہے، بہوجنوں کے ساتھ جڑ جائیں۔ بہوجن ممبرز کو مسلمانوں کی ضرورت نہیں، لیکن مسلمانوں کو ان کی ضرورت ہے۔ مساوات اور انصاف کی جنگ نہ تنہا مسلمان لڑسکتا ہے اور نہ کوئی بی سی یا ایس سی اپنے بل بوتے پر لڑ سکتا ہے۔ ایک متحدہ طاقت سے ہی ہندوستان میں فاشزم کا خاتمہ ممکن ہے۔