چودہویں صدی ہجری میں عالم اسلام نے مغربی دنیا سے شدید علمی وفکری مزاحمت کے بعد جو برتری ثابت کی اور جس کے نتیجے میں بہت سے علاقوں میں اسلام نے پھر سے اپنے قدم جمائے، وہاں اسلامی تہذیب وثقافت، اسلامی اقدار اور زندگی کے ہر شعبہ میں اسلام کی واضح اور عمد ہ تعلیمات نے لوگوں کو متاثر کرنا شروع کیا۔
عیسائیت کی سمٹتی طنابیں اور یہودیت کی مادیت سے قربت اور مذہب سے دوری کی وجہ سے اسلام لوگوں کے دلوں میں گھر کرنے لگا، جس سے مغربی استعمار کو خطرہ لاحق ہوا، اور ایسا انہیں محسوس ہونے لگا کہ اسلام دنیا کی بڑی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے۔ اس احساس نے ان کے اندر اسلام سے خوف پیدا کردیا اور وہ اسے ہوّا بنا کر فوبیا کے شکار ہو گئے۔
فوبیا نارمل حالت کو نہیں کہتے، یہ Abnormel fearہوتا ہے، یہ لفظ انگریزی سے منتقل ہو کر ان دنوں عربی میں بھی اسی معنی میں استعمال ہو رہا ہے۔ چنانچہ عربی میں اس کے معنی’’ ھلع مرض من شی معین ‘‘ مریضانہ انداز میں کسی معین چیز کا ہوّا کھڑا کر دینا کے ہیں، یہ ہوّا اُدباء، شعراء، مفکرین، میڈیا، دانشور ، سیاست داں وحکمراں سبھی طبقہ کی طرف سے کھڑا کیا گیا اور ایسا ماحول بنایا گیا کہ سبھی تہذیب وثقافت اور سبھی آئیڈیالوجی کے لوگ اسلام سے خطرہ محسوس کرنے لگے۔
اس خطرہ کے پیش نظر انہوں نے ایسی پالیسیاں بنائیں اور ایسے اقدام کئے، جس نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان کے دلوں میں نفرت کی آگ بھر دی، مستشرقین یورپ نے غلط پروپگنڈہ کرکے نفرت کی اس آگ کو خوب خوب ہوا دیا، اور شکوک وشبہات اور غلط فہمیوں کے پھیلانے کا کام منصوبہ بند انداز میں کیا گیا، جس کی وجہ سے غیر مسلم دنیا یقین کرنے لگی کہ اسلام، تشدد، زبردستی، بے لوچ کٹرپن، تعصب اور تنگ نظری کا مذہب ہے۔
انہوں نے اپنے منصوبہ کی بنیاد جن اصول ودفعات پر رکھی ،ا س میں ایک اصول یہ طے کیا کہ اسلامی معاشرہ سے ایسے طریقے سے نفرت دلائی جائے ، جس سے ہماری دشمنی طشت ازبام نہ ہو اور ہم دینی وروحانی اقدار میں عیوب ونقائص نکال کر اسے تہہ وبالا کرنے میں کامیاب ہو جائیں ( (کلمۃ الحق ماہ محرم ۱۳۸۷ھ مطابق اپریل ۱۹۶۴)۔
اس مہم میں بڑا حصہ یہودیوں کا رہا ، یہودیوں کی انٹر نیشنل کانفرنس منعقدہ ۱۹۰۰ئ نے قرارداد پاس کیا کہ ’’ ہم صرف اس پر اکتفا نہیں کریں گے کہ دین داروں پر فتح حاصل کریں، انکی عبادت گاہوں پر غلبہ حاصل کرلیں، بلکہ ہمارا بنیادی اور اصل مقصد ان لوگوں کے وجود کو ختم کرنا ہے۔ ماسونی مجلۂ کاسیا کے ذریعہ۱۹۰۳ء میں اس بات کا اعلان کیا گیا کہ ہمیں دین کو حکومت سے جدا کرنا ہے، اور ایسی جد وجہد کرنی ہے کہ ماسونیت دین کی جگہ لے لے اور اس کی محفلیں عبادت گاہوں کی جگہ لے لیں، ماسونی مشرق اعظم نے ۱۹۱۳ میں انسانوں کو مقصود بنانے اور خدا کو چھوڑ نے کی تجاویز پاس کیں اور بلغراد کی ماسونی کانفرنس۱۹۲۲نے اس بات کا اعلان کیا کہ ہمیں ہر گز نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم ماسونی، دین کے دشمن ہیں اور ہمیں دین کے آثار اور علامات کے خاتمہ کی کوشش میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔
عیسائی دنیا نے بھی اس جد وجہد میں حصہ لیا اور ساری توجہ مسلمانوں سے اسلامی فکر کے خاتمہ اور خدا سے ان کے تعلق کو منقطع کرنے پر صرف کر دیا، ان کی جد وجہد کا مرکزی محور مسلمانوں کی وحدت کو ختم کرنا اور پارہ پارہ کرنا رہا تاکہ مسلمان کمزور ذلیل اور بے سہارا ہو جائیں۔ ان کے یہ منصوبے وقتاً فوقتاً کامیاب بھی ہوتے رہے، خلافت اسلامیہ کا خاتمہ، ترکی کے دستور سے اسلامی اساس کو نکال باہر کرنا، عراق وافغانستان میں مسلمانوں کی قوت وطاقت کا زوال اور عراق کے مسلمانوں کو ٹکڑے ٹکرے کرنا، اسی منصوبے کے نتائج ہیں، جس سے اسلام اور مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔
جو لوگ کچھ اور نہیں کر سکے وہ تنگ نظری کے سبب ، سبّ وشتم پر اتر آئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی، چاہے وہ مضامین و مقالات کی شکل میں ہو، یا کارٹونوں کی شکل میں، اس کی تہہ میں یہی جذبہ کار فر مارہا ہے، اس کی بھی کوشش کی گئی کہ مسلمانوں کو ان کے مذہبی فرائض سے روکا جائے اور ثقافتی تقریبات منعقد نہ ہو سکیں۔
بعض نام کے مسلم لوگوں سے ایسے کام کروائے گئے، جس سے اسلام کے طور طریقوں اور عبادات کا مذاق اڑایا جاسکے ، میڈیا نے بڑے پیمانے پر اس کی تشہیر کی، جیسے سب کچھ بدل رہا ہے۔ اس طرح اسلام فوبیا کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہو تا چلا گیا، بنیادی حقوق کی ساری دفعات کتابوں میں بند ہو کر رہ گئیں۔ اور ان کے خلاف اظہار رائے کی آزادی کا ہتھیار استعمال کیا گیا،اور ان لوگوں نے کیا، جنہوں نے دوسروں سے آزادی کے حقوق چھینے اور سلب کئے۔
اس صورت حال سے مسلمانوں کو ذہنی اور کبھی کبھی جسمانی اذیتیں بھی اٹھانی پڑیں ، اس کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ مسلمانوں ہی میں سے کچھ لوگ مغرب کے سامنے سپر انداز ہوگئے اور انہوں نے مغربی تہذیب وثقافت کو اپنانے میں خیر وشر کی تمیز کے بغیر تیزی دکھائی اور اسلامی تہذیب وثقافت کو عقیدہ، عبادات اور پرسنل لا تک محدود کرکے رکھ دیا، تدریجا ان شعبوں میں بھی انہوں نے اسلام سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور پورے طور پر مغرب کے ہم نوا ہو گئے۔
اس طرح اسلام فوبیا کا دائرہ مسلمانوں تک پہونچ گیا۔ اور وہ بھی مغرب کے غلط پروپیگنڈے کے شکار ہو گئے، یہ دائرہ دھیرے دھیرے بڑھتا جا رہا ہے۔لیکن اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ دوسرے مذاہب کے لوگوں نے اسلام کو جاننا اور پڑھنا شروع کیا، ان میں اس مذہب کے تئیں ایک قسم کا تجسس پیدا ہوگیا، اور اسلام کی صداقت نے ان کے دلوں میں گھر کرلیا، یہی وجہ ہے کہ آج بڑی تیزی سے دوسرے مذاہب کے لوگ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ اسلام فوبیا کے ازالہ کی شکل صرف یہ ہے کہ ہم اسلام کی واضح اور صحیح تعلیمات کو لوگوں میں پھیلا ئیں، مغرب میں جن کتابوں کو اسلام کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ وہ بیش تر مستشرقین کی لکھی ہوئی ہیں اور وہ قاری کو گمراہ کرتی ہیں، ضرورت ہے کہ مغرب اور یورپ کی مروجہ زبانوں میں وہاں کے معیارومزاج کو سامنے رکھ کر اسلام کی بنیادی تعلیمات ، نبی رحمت کی رحمت ومحبت سے پُر احکام وہدایات کے مختلف پہلوؤں پر کتابیں لکھی جائیں اوران سے مغرب کو روشناس کرایا جائے ۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ کام نہیں کیا جا رہا ہے، مقصد صرف یہ ہے کہ جس بڑے پیمانے پر ہونا چاہسے، نہیں ہو رہا ہے۔ اس کے لئے احمد دیدات جیسے مین ٹومشن(MAN TO MITION) کی ضرورت ہے ، اس کے بغیر اسلام فوبیا کا ازالہ ممکن نہیں معلوم ہوتا ۔
دعوت دین کاکام حکمت کے ساتھ ہم نے کم کیا ہے ؛ حالانکہ دعوت دین کے کاموں میں اس کو اولیت حاصل ہے ۔جس کاپتہ حکم خدا وندی ُادْعُ اِلیٰ سَبِیْلِ رَبِّک بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنْ سے چلتاہے اور جس میں ’’دعوت بالحکمۃ‘‘ کو مقدم رکھا گیا ہے۔
یہاں مجھے اس حقیقت کا بھی اعتراف کرنا چاہئے کہ خود ہمارے بہت سارے اعمال ’’اسلام فوبیا ‘‘کا سبب بن جاتے ہیں، تلواروں سے ٹپکتے خون کے اشتہارات ، بابری مسجد کی تصویر کے ساتھ ، الہی بھیج دے محمود کوئی کااشتہار ، اور انتہا ئی پُر امن کارواں میں تلوار کو تحفے میں پیش کرنے،جیسا عمل دیکھنے میں جتنا بھلا معلوم ہو، دوسرے مذاہب والے اسے دہشت اور تشدد کا اشاریہ سمجھتے ہیں، اور خود مسلم سماج کو ایسے اشتہارات سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔
اس قسم کی حرکتوں سے دوسرے مذاہب والے اسلامو فوبیا کے شکار ہوجاتے ہیں۔ہماری بے عملی اور بد عملی سے بھی اسلام فوبیا کا پیغام دوسروں تک پہونچا ہے، اس لئے ہمیں اپنے اعمال کا بھی محاسبہ کر نا چاہئے ،کہ کہیں ہم دانستہ یا نا دانستہ ، اسلام کونقصان تو نہیں پہونچا رہے ہیں ۔
اسلام فوبیا کے ازالہ کے لئے کرنے کا ایک کام یہ بھی ہے، اسلام کے محاسن کے اظہار کے ساتھ ساتھ اسلام دشمنوں کی جانب سے مخالفانہ فکری یلغارکا علمی جواب دیاجائے، اس سے اسلامی تہذیب وثقافت پر مسلمانوں کا اعتماد بحال ہوگا ، اور اسلام مخالف اعتراضات کا دفاع کیا جا سکے گا۔اگرہم ان امور پر توجہ دے سکے اور لوگوں کو صحیح اسلامی تعلیمات سے روشناش کرا سکے ، تو اگلی صدی انشاء اللہ اسلام کی صدی ہوگی_