نئی دہلی ،14 جولائی2022:
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دے کر عبادت گاہوں سے متعلق1991 کے قانون کو چیلنج کر نے والی پی آئی ایل کی مخالفت کی ہے۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سیکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے ایک پریس بیان میں کہا ہے کہ اس قانون کو چیلنج کرنے والی مفاد عامہ کی درخواستوں کے ساتھ ہماری اس درخواست کو بھی نتھی کر لیا جائے، جس میں عبادت گاہوں سے متعلق قانون1991 کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا گیا ہے۔
بورڈ کی درخواست میں کہا گیا کہ مفاد عامہ کی درخواستوں میں دراصل ایک ایسے قانون کو ختم کر نے کا مطالبہ کیا جارہا ہے جس پر خود سپریم کورٹ کا ماننا ہے کہ ”یہ ہندوستان کے اس عزم کا اظہار ہے کہ ملک میں تمام مذاہب برابر ہیں“۔
عدالت عظمیٰ نے آگے کہا تھا کہ ”یہ قانون دراصل اثبات ہے اس بات کا کہ یہ اسٹیٹ کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ ملک کے تمام مذاہب کو یکساں احترام اور تحفظ فراہم کیا جائے نیز یہ دستور ہند کی بنیادی خصوصیت بھی ہے۔“
بورڈ کی درخواست میں آگے کہا گیا اس قانون(1991) کی بنیادی حیثیت اور اس پر عدالت عظمیٰ کا ریمارکس کہ یہ دستور ہند کی بنیاد قدر ہے کہ اگر درخواست دھندگان کے اس دعویٰ کو تسلیم کر لیا جائے کہ اس سے ان کے بنیادی حقوق سلب ہوتے ہیں اور ان کی درخواست کو قبول کر لیا گیا تو اس سے نئے مسائل اور تنازعات کھڑے ہو جائیں گے۔
دراصل پی آئی ایل کے پس پردہ درخواست دھندگان کے سیاسی مقاصد کارفرما ہیں۔ اس طرح کے تنازعات دراصل سماج کے تانے بانے کو متاثر کر تے ہیں اور سماج کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کر دیتے ہیں، جس کا مظاہرہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد قتل و غارت گری کی شکل میں سامنے آیا تھا۔
درخواست میں کہا گیا کہ1991 کے قانون کو لانے کا بنیادی مقصد ہی یہ تھا کہ مستقبل میں اس طرح کے مبینہ دعوؤں پر قدغن لگائی جاسکے۔ مزید کہا گیا کہ مذہبی عبادت گاہوں سے متعلق تنازعات بہت حساس ہو تے ہیں، جو قانون کی بالادستی کو نہ صرف چیلنج کر تے ہیں بلکہ سماج کے امن و سکون کو بھی درہم برہم کر دیتے ہیں۔