بی جے پی حکمران ریاستوں بالخصوص اترپردیش میں غیر قانونی تعمیرات کے نام مسلمانوں کے گھروں اور املاک کو منہدم کردیا جارہا ہے۔
پریس ریلیز: جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی کی درخواست پر آج سپریم کورٹ کی جسٹس بی آر گاوائی اور پی ایس نرسمہا کی بنچ کے سامنے بحث کرتے ہوئے سینئر وکیل دشینت داو ے نے کہا کہ حکومت ہنگامہ میں ملوث افراد کے خلاف اس کی شناخت اور مذہب کی بنیاد پر کارروائی کررہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ”مکانات کو صرف اس لیے گرانا کہ کسی پر کسی جرم کا الزام لگایا گیا ہو، ہمارے معاشرے میں قابل قبول نہیں ہوسکتا، ہم قانون کی حکمرانی والے ملک میں رہتے ہیں، یہاں کوئی شہنشاہیت یا آمریت نہیں چلتی”۔
انھوں نے انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کل ہی آسام میں ایک شخص کے گھر کو گرا دیا گیا کیوں کہ اس پر کسی کو خودکشی پر مجبور کرنے کا الزام ہے۔ سینئر وکیل نے دلیل دی کہ پولیس حکام سزا کے طور پر انہدامی کارروائی کا سہارا لے رہے ہیں، یہ بھی کہا گیا کہ جہانگیر پوری میں سپریم کورٹ کی جانب سے اسٹے کے باوجود، یوپی سمیت کئی دوسرے شہروں میں بھی اسی طریقہ کار کی پیروی کی گئی اور لگاتار نوٹس دیا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں کئی معاملات کا حوالہ بھی دیا گیا۔
حالاںکہ سالیسٹر جنرل آف انڈیا اور دوسرے سرکاری وکیل ہریش سالوے نے یہ الزام عائد کیا کہ جمعیۃ جیسی تنظیم معاملے کو بلا ضرورت تل کا تاڑ بنارہی ہے، یہ کارروائی صرف غیر قانونی تعمیرات کے خلاف ہے اور یہ عمل ہنگامہ سے پہلے ہی شروع کیا گیا تھا، اس پر دشینت داو ے نے کہا کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے جس سے ظاہر ہو کہ دیگر غیر مجاز مکانات کے خلاف کارروائی کی گئی ہے، بلکہ یہ ایک طبقہ کے خلاف انتقامی کارروائی ہے… ورنہ تو پورا سینک فارم غیر قانونی ہے، 50 سالوں سے کسی نے اسے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ دہلی کے غیر قانونی فارم ہاؤسز کو دیکھیں، کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔” اس لیے سپریم کورٹ نے جس طرح جہانگیر پوری میں اسٹے کاحکم جاری کیا ہے، اسی طرح یوپی وغیرہ میں حکم جاری کرے اور انتظامیہ کو آمرانہ فیصلے سے روکے۔
اس پر سپریم کورٹ کی بنچ نے زبانی طور سے پوچھا کہ ” اس پر کوئی کلام نہیں کہ سرکار کو قانون کی حکمرانی پر عمل کرنا ہوگا، لیکن کیا ہم ایک علی الاطلاق آرڈر پاس کر سکتے ہیں؟۔ اگر میونسپل قانون کے تحت کوئی مکان غیر قانونی ہے، تو کیا حکام کو روکنے کے لیے علی الاطلاق آرڈر پاس کیا جا سکتا ہے؟” اس سوال کے ساتھ سپریم کورٹ نے اس معاملے کی اگلی سماعت کے لیے 10 اگست کی تاریخ مقرر کی ہے۔
جسٹس اے ایس بوپنا اور وکرم ناتھ کی تعطیلاتی بنچ نے 16 جون 2022 کو اتر پردیش کی حکومت سے کہا تھا کہ وہ قانون کے ذریعہ قائم کردہ طریقہ کار سے باہر نکل کر انہدامی کارروائیاں انجام نہ دے۔ انھوں نے ریاست کو تین دن کا وقت بھی دیاتھا تاکہ وہ جواب دیں کہ حالیہ انہدام کس میونسپل قانون کے مطابق انجام دیا گیا۔
اس کے جواب میں ریاست اترپردیش نے ایک حلف نامہ داخل کیا کہ کانپور اور پریاگ راج میں حالیہ انہدام مقامی ترقیاتی اتھارٹیز نے اتر پردیش اربن پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ 1973 کے مطابق کیا گیا ہے۔ حکومت نے واضح طور پر اس بات کی تردید کی کہ مسماری کا تعلق فسادات سے تھا لیکن سچائی تو یہ ہے کہ حکومت صرف پردہ ڈالنے کی کوشش کررہی ہے۔