عیدالاضحیٰ سے صرف ایک روز قبل ہفتے کے روز جموں و کشمیر کے شہر سری نگر میں ایک 21 سالہ نوجوان پولیس کی حراست میں مبینہ طور پر تشدد کے بعد ہلاک ہوگیا۔ اس کے اہل خانہ نے اس کی موت کے ذمہ دار پولیس اہلکاروں کو قرار دیا اور ان کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے مظاہرہ کیا۔
‘مسلم مرر’ کے مطابق متاثرہ مسلم منیر لون کو ہفتہ کی صبح چوری کے معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا اور اسے سری نگر کے نوگام پولیس اسٹیشن لے جایا گیا تھا۔ تاہم پولیس کی ایک ٹیم دوپہر کو اس کے گھر آئی اور اس کی والدہ شفیقہ کو بتایا کہ اس کا بیٹا ہوش کھو چکا ہے۔
پولیس نے دعوی کیا ہے کہ مسلم منیر لون نشے کی حالت میں تھانے آیا تھا اور چند گھنٹوں کے بعد اسے اہل خانہ کے حوالہ کردیا گیا۔ تاہم بعد میں معلوم ہوا کہ پانچ بجے اس کی موت ہوگئی ہے۔ پولیس نے کہا کہ اس معاملے میں مقدمہ درج کرکے دفعہ 175 سی آر پی سی میں شفاف تحقیقات کی ہدایت دی گئی ہے اور ایک پولیس اہلکار کو معطل کردیا گیا ہے جس پر فوت شدہ نوجوان کے اہل خانہ نے تشدد کا الزام عائد کیا ہے۔
جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلی و پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے پولیس پر الزام عائد کیا کہ مذکورہ نوجوان کی موت پولیس حراست میں ہوئی ہے اور اب افسوس یہ ہے کہ پولیس اس کو نشے کا عادی قرار دے کر اس کی موت کو قانونی جواز دے رہی ہے۔
محبوبہ مفتی نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ‘یہ کافی افسوسناک ہے کہ ایک نوجوان کی مبینہ طور حراست میں موت ہوئی ہے اور بعد میں اسے منشیات کا عادی قرار دیا جاتا ہے’۔
محبوبہ مفتی نے کہا کہ ‘پولیس کے یہ بد نما الزامات سچائی سے کوسوں دور ہیں۔ محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ ‘کشمیر میں نوجوانوں کو ہائبرڈ، وائٹ کالر عسکریت پسند، او جی ڈبلیو کا الزام لگا ان کی ہلاکت کو قانونی جواز دیا جاتا ہے، تاہم اب نشے کا عادی قرار دے کر ہلاکت کو جواز دیا جا رہا ہے جو باعث تشویش ہے’۔