آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کو سپریم کورٹ نے اتر پردیش میں نفرت انگیز تقریر مقدمے میں عبوری ضمانت دے دی ہے لیکن وہ فی الحال دہلی پولیس کی حراست میں ہی رہیں گے۔
سپریم کورٹ نے سیتا پور کیس میں محمد زبیر کو شرائط کے ساتھ پانچ دن کی ضمانت دی ہے۔ اس دوران زبیر نہ تو ٹویٹ کریں گے اور نہ ہی دہلی چھوڑ کر کہیں جا سکیں گے۔ اس سے قبل محمد زبیر کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل کولن گونزالویس نے عدالت کو بتایا کہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔
تشار مہتا نے محمد زبیر کی ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے عبوری حکم کو پیر تک موخر کرنے کی درخواست کی لیکن عدالت نے اسے مسترد کرتے ہوئے زبیر کو عبوری ضمانت دے دی۔
واضح رہے کہ محمد زبیر نے اپنی جان کو خطرہ بتاتے ہوئے جمعرات کو سپریم کورٹ میں ایپل دائر کی تھی۔ جس کی سماعت جسٹس اندرا بنرجی اور جسٹس جے کے مہیشوری کی بنچ نے کی۔
اپنی درخواست میں محمد زبیر نے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے یوپی پولیس کی طرف سے ان کے خلاف درج ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ 10 جون کو الہ آباد ہائی کورٹ نے محمد زبیر کی ایک رٹ پٹیشن کو خارج کر دیا تھا۔
محمد زبیر نے اپنی ٹویٹ میں مبینہ طور پر تین ہندو سنتوں کو نفرت پھیلانے والے کہا تھا۔ جس کے خلاف سیتا پور میں زبیر کے خلاف نفرت انگیز تقریر کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
زبیر کے وکیل کولن نے عدالت کو بتایا کہ ‘ زبیر نے کسی مذہب کے خلاف کوئی تبصرہ نہیں کیا تاہم نفرت انگیز تقاریر کرنے والے ضمانت پر باہر ہیں۔’
کولن نے کہا ’’زبیر نے اسے نفرت انگیز کہہ کر کوئی غلط کام نہیں کیا۔ انہیں پولیس نے نفرت انگیز کہنے پر گرفتار کیا ہے جبکہ نفرت انگیز تقریر کرنے والے لوگ ضمانت پر باہر آنے کے بعد دوبارہ نفرت انگیز بیانات دے رہے ہیں۔
محمد زبیر نے قبول کیا ہے کہ اس نے وہ ٹویٹس کیے ہیں، پھر بھی پولیس اس کا موبائل اور لیپ ٹاپ برآمد کرنا چاہتی ہے، اسی لیے میں سپریم کورٹ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ زبیر کے خلاف مقدمہ خارج کیا جائے۔ کولن نے کہا "محمد زبیر اس وقت جیل میں ہے جب کہ زبیر نے ان کے نفرت انگیز بیانات کو بے نقاب کیا، اور جن لوگوں نے یہ نفرت انگیز بیانات دیے وہ ضمانت پر باہر ہیں۔”