صحیح تعلیم ہمارے دل و دماغ کو مثبت اور صحیح رخ دینے کاکام کرتی ہے، اسی وجہ سے ہر دور میں حکمراں طبقے نے ایک ایسا نظام تعلیم رائج کرنے کی کوشش کی جو اس کے خیالات اور طریقۂ کار کو تحفظ فراہم کر سکے۔ لارڈ میکالے سے لے کر بھاجپا حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی تک، اسی کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔
لارڈ میکالے نے کہا تھا کہ ہم تعلیم سے ایک ایسی نسل تیار کرنا چاہتے ہیں جو جسم اور شکل و صورت کے اعتبار سے ہندوستانی ہو لیکن اس کی فکر اور سوچ انگریزی حکومت کے مفاد کے مطابق سوچے اور کام کرے۔ اس کے جواب میں حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ نے فرمایا تھا کہ ہم ایک ایسی تعلیم کو رواج دیں گے جس سے یہاں کے مسلمان پورے طور پر اسلام کے سانچے میں ڈھل سکیں۔ وہ دیکھنے میں ہندوستانی ہوں، لیکن وہ اسلام کے اعلیٰ اخلاقی اقدار کے نمائندہ ہوں۔
آزاد ہندوستان میں کئی بار نظام تعلیم اور نصاب تعلیم بنائے گئے، کانگریسی دور اقتدار میں سیکولر انداز کی تعلیمی پالیسی بنی اور تمام مذاہب کے بڑوں کو اس میں جگہ دی گئی، لیکن اب دور دوسرا ہے، نئی تعلیمی پالیسی آئی ہے، اس میں ہندو میتھالوجی اور دیو مالائی روایات کو فروغ دینے کے لیے نظام اور نصاب بنایا گیا ہے۔
تاریخ کی کتابوں سے مسلم دور حکومت کے روشن باب کو نکال دیا گیا ہے اور مفروضہ اور بے اصل واقعات کو نصابی کتابوں میں بھرا جا رہا ہے۔ جنہوں نے کبھی کچھ نہیں کیا، انگریزوں کے تلوے چاٹنے اور معافی مانگنے میں جن کی عمریں گذر گئیں، آج وہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو کچل کر رکھ دیں، اور مسلم تہذیب و ثقافت کے اس ملک میں فروغ اورمسلم بادشاہوں کی اس ملک میں جو قربانیاں ہیں اور ملک کو متحد رکھنے کے لیے جو کچھ انہوں نے کیا، اس سے سرے سے انکار کرد یا جائے۔
واقعہ یہ ہے کہ جتنا بڑا ہندوستان مسلمانوں نے اپنے وقت میں بنایا تھا اور حکومت کی تھی، اس میں کچھ تو انگریزوں نے توڑ پھوڑ کی اور کچھ کو بعد کے سیاستدانوں نے اپنی حکومت قائم کرنے کی غرض سے تقسیم کردیا، اس لیے ضرورت اس بات کی محسوس ہو رہی ہے کہ ہمارا اپنا ایک نصاب تعلیم ہو ۔ جس کے ذریعہ بنیادی تعلیم کے ساتھ اسلامی ماحول میں بچے اور بچیوں کو معیاری عصری تعلیم دی جائے۔
اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ کیا تعلیم کی دوئی جس نے بقول مولانا مناظر احسن گیلانیؒ ملت کو دو نیم کر دیا ہے، اس کے تدارک کی کوئی شکل نکالی جا سکتی ہے، خود امارت شرعیہ کے جو اسکول و مکاتب چل رہے ہیں، ان میں اس کا تجربہ کیا جائے ۔ امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب دامت برکاتہم کی خواہش ہے کہ ہم ایسا نصاب تیار کرنے کے لیے کام شروع کریں۔
حضرت امیر شریعت کی صدارت میں نصابی کمیٹی کی ایک اہم میٹنگ 9جون 2022 کو امارت شرعیہ میں ہوئی ہے، جس میں ماہرین تعلیم اور نصاب پر نگاہ رکھنے والے بالغ نظر افراد نے بنیادی خاکوں پر گفتگو میں حصہ لیا اور طے پایا کہ قرآن کریم، عربی اور انگریزی زبان کی تعلیم اور بنیادی دینی تعلیم کو اس نصاب میں اہمیت دی جائے اور ہماری نصابی اور غیر نصابی سرگرمیاں بھی اس کے گرد ہی گھومیں ، ہم ثقافت کے نام پر رقص بچوں کو نہیں سکھائیں گے ۔ اور کوئی ایسی چیز ہمارے نصاب کا حصہ نہیں بنے گی جو شرعی اصول و ہدایت کے خلاف ہے۔
یہ ایک اچھی پیش رفت ہے ، ہمیں امید ہے کہ اس نہج پر جو نصاب تیار ہو گا ، وہ ہماری تعلیمی ، تہذیبی ، مذہبی اور ثقافتی ضرورت کو پورا کرے گا۔