فلسطینی قیدیوں کی کلب ایسوسی ایشن نے ایک بیان میں کہا کہ ایک 68 سالہ خاتون فلسطینی قیدی ہفتے کی صبح اسرائیلی جیل میں دم توڑ گئی، جس کی صحیح وجہ معلوم نہیں ہے۔
مقامی نیوز ایجنسی کے مطابق فلسطینی غیر سرکاری تنظیم نے کہا کہ جنوبی مغربی کنارے کے شہر ہیبرون سے تعلق رکھنے والی آٹھ بچوں کی والدہ سعدیہ فراج اللہ "شمالی اسرائیل میں ڈیمون کی اسرائیلی جیل میں انتقال کر گئیں”، اس نے مزید کہا کہ وہ "اسرائیلی جیل میں سب سے معمر خاتون قیدی” تھیں۔
فراج اللہ کو دسمبر 2021 میں اسرائیلی فوجیوں پر چھرا گھونپنے کی کوشش کے بعد ہیبرون کے وسط میں واقع ابراہیمی مسجد کے قریب سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کی موت کی اصل وجہ نامعلوم ہے، اسرائیلی حکام نے اس واقعے پر کوئی سرکاری تبصرہ نہیں کیا۔
اسرائیل کی جیل سروس نے بتایا کہ فراج اللہ، جو ایک دائمی بیماری میں مبتلا تھی اور باقاعدہ ان کا علاج چل رہا تھا، اس ہفتے ہسپتال سے جیل واپس آئی تھی۔ ان کی موت کے حالات کے بارے میں تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔
سعدیہ کے بھائی، تیسیر فراج اللہ نے شنہوا کو بتایا کہ ان کی بہن ماضی میں کسی بیماری میں مبتلا نہیں تھی اور یہ کہ "جیل نے سعدیہ کو تشدد کا نشانہ بنایا” اور "ضروری علاج کیے بغیر” چھوڑ دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ "خاندان کے افراد اس کی حراست کے دوران جھوٹے بہانوں سے اس سے ملاقات نہیں کر سکتے تھے” اسرائیلی حکام پر ان کی موت کے "مکمل طور پر ذمہ دار” ہونے کا الزام لگاتے ہوئے اور ان کی موت کی اہم وجہ کا پتہ لگانے کے لیے پوسٹ مارٹم کا مطالبہ کیا۔
فلسطینی وزیر اعظم محمد اشتیٰ نے طبی غفلت کے باعث فراج اللہ کی موت کا مکمل طور پر ذمہ دار اسرائیلی حکام کو قرار دیتے ہوئے انسانی حقوق کی بین الاقوامی کمیٹیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ تحقیقات شروع کریں اور اسرائیل پر تمام خواتین قیدیوں خصوصاً بیمار اور بچوں کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالیں۔
فلسطین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی وفا نے بتایا ہے کہ فراج اللہ کی موت سے 1967 سے اسرائیلی جیلوں میں مرنے والے فلسطینی قیدیوں کی تعداد 230 ہو گئی ہے۔
فلسطین لبریشن آرگنائزیشن میں زیر حراست افراد اور سابق اسیران کے امور کے کمیشن کے مطابق اسرائیلی جیلوں میں تقریباً 500 بیمار قیدی ہیں جن میں سے 50 کے قریب افراد کو خصوصی نگہداشت کی ضرورت ہے۔