صدر رام ناتھ کووند کی مدت کار ختم ہو رہی ہے، چنانچہ انتخابی کمیشن نے نئے صدر کے انتخاب کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا ہے ، اور سیاسی پارٹیوں میں سر گرمیاں تیز ہو گئی ہیں، ممتا بنرجی حزب مخالف کو متحد کرنے میں لگی ہوئی ہیں، ان کی دعوت پر سترہ چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیاں میٹنگ میں شریک ہوئیں اور شرد پوار، فاروق عبد اللہ اور گوپال کرشن گاندھی میں سے کسی ایک کو متحدہ امیدوار بنانے کی تجویز آئی، شرد پوار نے تو مجلس میں ہی انکار کر دیا، فاروق عبد اللہ نے غور وفکر کرکے انکار کردیا، اور کشمیر کو ابھی ان کی ضرورت ہے کہہ کر اپنے کو امیدواری سے الگ کر لیا، یعنی وہ ابھی سر گرم سیاست سے کنارہ کش نہیں ہوناچاہتے۔
آخر میں گوپال کرشن گاندھی نے بھی صدارتی امیدوار بننے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہم سے بہت اچھے لوگ اس عہدہ کے لیے دستیاب ہیں، شرد پوار نے اس پر دوبارہ میٹنگ بلائی جس میں حزب مخالف نے یشونت سنہا کے نام پر اتفاق کر لیا، انہوں نے ۱۹۶۲ء میں یوپی ایس سی امتحان میں بارہواں رینک حاصل کیا تھا اور ڈی ایم بن گیے تھے، مہا مایا پرشاد کے زمانہ میں ان کے ایک وزیر کی بد تمیزی اور وزیر اعلیٰ کے بگڑ جانے پر انہوں نے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا تھا کہ وزیر اعلیٰ تو آئی اے ایس نہیں بن سکتے، لیکن میں وزیر اعلیٰ بن سکتا ہوں۔
پھر انہوں نے سیاست شروع کی ،یشونت سنہا بھاجپا کے سابق ترجمان بھی رہے ہیں، 1994ء میں ان کو یہ عہدہ پارٹی نے دیا تھا، وہ ۱۹۹۸ء سے ۲۰۰۲ء تک باجپئی حکومت میں وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔ بھاجپا سے ناطہ توڑ کر انہوں نے ترنمول کانگریس میں شمولیت اختیار کی تھی، حزب مخالف کے مشترکہ امیدوار بنے کے بعد انہوں نے ترنمول کانگریس سے استعفی دیا، انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ دروپدی سے میرا کوئی ذاتی اختلاف اور لڑائی نہیں ہے، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ صدر جمہوریہ کی حیثیت سے ان سے زیادہ دستور کی حفاظت کر سکتا ہوں۔
یشونت سنہا کے نام کے اعلان کے بعد بھاجپا نے بھی اڈیشہ کی آدی باسی قبائلی خاتون دروپدی مرمو کو اپنی طرف سے صدارتی امیدوار نامزد کیا ہے ، دروپدی مرمو نے اپنی زندگی کی شروعات کلرک کے طور پر کیا تھا، بعد میں وہ میور بھنج کی وارڈ کونسلر ، پھر وہاں کی نائب میئر بنیں، اڈیشہ حکومت میں وزیر کے طور پر بھی دو بار خدمت انجام دیا، شوہر اور دو بیٹیوں کے انتقال کے بعد ان کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا سماجی خدمت ہی رہا، وہ جھارکھنڈ میں پہلی آدیواسی گورنر کی حیثیت سے کام کر چکی ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے بہت سوچ سمجھ کر یہ نام پیش کیا ہے ، بیجو جنتا دل کے نوین پٹنایک کہہ چکے تھے کہ کسی آدی واسی امیدوار کو ہی ہم سپورٹ کریں گے، اس طرح درویدی مرمو کے حق میں بیجو جنتا دل کا جانا طے ہے، نتیش کمار کی جے ڈی یو عاب، وائی اس آر کانگریس اور دوسری علاقائی پارٹیوں نے بھاجپا امیدوار کے ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے، مرکزی حکومت نے جیت کے یقین کی وجہ سے ہی انہیں زیڈ سیکوریٹی بھی فراہم کر دی ہے۔
انصاف کا تقاضہ تھا کہ یشونت سنہا کو بھی سیکوریٹی فراہم کی جاتی، لیکن ایسا نہیں ہوا، وزیر اعظم نریندر مودی نے یہ ذمہ داری راج ناتھ سنگھ کو سونپی ہے کہ وہ اپنے امیدوار کے حق میں دوسری پارٹیوں کی آراء ہموار کریں، بظاہر یہ بہت مشکل بھی نہیں ہے، لیکن مشہور ہے کہ سیاست اور کرکٹ میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا۔
مہاراشٹرا کی مخلوط حکومت کا حشر ہمارے سامنے ہے، یقین تو یہی ہے کہ این ڈی اے امیدوار دروپدی مرمو جیت جائیں گی، وہ خاتون ہیں، آدی باسی ہیں اور پارٹیاں 2024ء کے انتخاب کے پیش نظر ان کو نظر انداز نہیں کر سکیں گی، بھاجپا اور این ڈی اے کی حلیف پارٹیوں کے ذریعہ دروپدی مرمو کا انتخاب یہ بتاتا ہے کہ آزادی کے پچھہتر سال کے بعد بھی ہمارے یہاں علاقائی اور طبقاتی ترجیحات دور غلامی کی طرح ہی ہے، تبھی تو بھاجپا کے صدر جے پی نڈا نے اس نام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ان کا انتخاب تین وجہ سے ہوا، وہ پورب کے علاقہ سے آتی ہیں، عورت ہیں اور آدی باسی ہیں، یعنی اس انتخاب میں علاقہ، قبیلہ اور صنفی جنس کا دھیان رکھا گیا ہے۔