Bureaucracy in India
متفرق مضامین

افسر شاہی

ہندوستان میں حکومت، وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ اور ضلع مجسٹریٹ کے ذریعہ چلایا جا تا ہے ، ضلع مجسٹریٹ کو چھوڑ کر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہونے کے لیے کوئی معیار مقرر نہیں ہے، بس عوام نے اسے چن کر بھیجا ہو، یا جو ہارنے کے بعد بھی عوام کی مرضی کے خلاف پارٹی کی پسند پر راجیہ سبھا یا ودھان پریشد کا رکن بن گیا ہو، کبھی کبھی تو ہارا ہوا آدمی بھی وزیر بنا دیا جاتا ہے اور عوام کی مرضی کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔

چھ ماہ تک وہ بغیر کسی ایوان کا ممبر رہے حکومت کر سکتا ہے ،پھر اس منتخب شخص کے لیے پڑھا لکھاہونا بھی ضروری نہیں ہے ، وہ ’’لکھ لوڑھا پڑھ پتھر‘‘ بھی ہو سکتا ہے ، یہ بھی ممکن ہے کہ قانون سے واقفیت کے بغیر کسی کو وزیر قانون بنا دیا جائے، اور جس نے تعلیم کے میدان میں کوئی سند نہ حاصل کی ہو وہ وزیر تعلیم بنا دیا جائے اور عوام اس کی تعلیمی سند کھوجتی رہ جائے۔

اس صورت حال کا بڑا فائدہ بیورو کریٹ اور افسران اٹھاتے ہیں، اسی لیے آئی ایس ، آئی پی اس اور سول سروسز کا امتحان جب کوئی پاس کر تا ہے تو اس کے لیے مبارکباد یوں کا سلسلہ دراز ہوتا ہے ، خاندان والوں کے لیے یہ انتہائی فخر اور خوشی کی بات ہوتی ہے ،ا نہیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا بیٹایا بیٹی حکمراں جماعت کا ایک اہم حصہ بن گیا ہے اور وہ بہت سارے معاملات پر اپنی صلاحیت سے اثر انداز ہوسکتا ہے۔

ظاہر ہے ان حضرات کے کام کرنے کے لیے بھی کچھ اصول وضوابط مقرر ہیں اور انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا دائرہ کار کیا ہے ، اس دائرہ کار میں سب سے اہم کام فائل کی نوٹنگ اور ڈرافٹنگ ہے؛ اس لیے کہ فائل اسی تحریر کے سہارے آگے بڑھتی ہے اور بہت کم معاملات میں اس کے خلاف فیصلہ ہوپاتا ہے ، اگر وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم اس کے خلاف ہیں تو اس ڈرافٹ کو بدل دینا ہوتا ہے ، پھر حاکم کی منشا کے مطابق نوٹس تیار ہوتے ہیں اور پھر حکم تحریر ہوتا ہے ، اب یہ ان کی صلاحیت پر منحصر ہے کہ وہ کس کو کس طرح گھما پھرا دیتے ہیں۔

بعض ایماندار افسروں کو چھوڑ کر عموما ان کا رویہ پبلک کے ساتھ متکبرانہ ہوتا ہے وہ ان کی بات کو ٹھیک سے سنناکسر شان سمجھتے ہیں، اتناہی نہیں وہ اپنے عہدے کا سہارا لے کر بہت سارے غلط کام کر ڈالتے ہیں، ایسا ہی ایک معاملہ دہلی کے تیاگ راج اسٹیڈیم کا سامنے آیا ہے ، دہلی سرکار میں انکم ٹیکس محکمہ کے سکریٹری کھروا ر پر الزام ہے کہ وہ شام کو اسٹیڈیم میں اپنے کتے کو سیر کرانے کے لیے تربیت لینے والے کھلاڑیوں کو باہر نکال دیا کرتے تھے ، کوچ بھی اس کی زد میں آتے تھے، ظاہر ہے یہ اپنے عہدے کا بے جا استعمال ہے، چنانچہ جب یہ خبر عام ہوئی تو کھروار کا تبادلہ لداخ اور ان کی آئی اے ایس اہلیہ کو اروناچل پردیش منتقل کیا گیا۔

انڈین اکسپریس کی ایک خبر کے مطابق ایر انڈیا جواب ٹاٹا گروپ کے پاس ہے، اس میں کئی افسران اکنومی ٹکٹ لیکر بزنس کلاس میں جا بیٹھتے ہیں، حالاں کہ بزنس کلاس کا کرایہ بہت زیادہ ہوتا ہے، شہری ہوابازی محکمہ کے افسران کے لیے تو یہ روز کا معمول اور روز مرہ کی بات ہے، عہدے کے غلط استعمال کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ پولیس والوں کو غیر ضروری تشدد کا حکم دیا جائے، جیسے ان دنوں ہندوستان کے مختلف شہروں میں ہو رہا ہے ۔

اس افسوسناک صورت حال اور غلط رویہ سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ان پر لگام کسا جائے اور ان پر نگاہ رکھی جائے تاکہ وہ من مانا ڈھنگ سے کام کرکے عوام کے لیے پریشانی کا باعث نہ بنیں۔