بھاجپا کی مودی حکومت کے اب کم وبیش ڈیڑھ سال باقی ہیں، انتخاب سر پر ہے ، اس لیے وزیر اعظم نے اعلان کیا ہے کہ ڈیڑھ سال (جو بچے ہوئے ہیں) اس میں سرکاردس لاکھ لوگوں کو نوکری دے گی، اگر مودی جی کے دوسرے فیک جملوں کی طرح یہ صرف جملہ بازی نہ ہو تو یہ ایک بڑا اعلان ہے اور اسے زمین پر اتار دیا گیا تو آئندہ انتخابات میں اس کا فائدہ بھی بی جے پی کو ملے گا، گواس وقت بھی عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوگی کہ ہر سال جو دو کروڑ ملازمت کا وعدہ آپ نے کیا تھا اس کا کیا رہا ، آٹھ سال میں سولہ کروڑ کی نوکری کی جگہ صرف دس لاکھ کیا معنی رکھتا ہے ۔
سنٹر فار انڈین اکاڈمی کے سروے کے مطابق ہندوستان میں بے روزگاری کی شرح ۳ء۷ ؍ فیصد ہے، ہر سال ۲ ء ۱؍ کروڑ بے روزگاروں کا اضافہ ہوجاتا ہے، کیوں کہ ان کی عمر ملازمت کی ہوجاتی ہے، مرکزی حکومت کے پاس چالیس لاکھ سات ہزار (4007000)آسامیاں منظور شدہ ہیں، جن میں اکتیس لاکھ اکانوے ہزار (3191000)جگہ پر لوگ کام کر رہے ہیں، آٹھ لاکھ ستاسی ہزار آسامیاں اب بھی خالی پڑی ہیں۔
۲؍ دسمبر ۲۰۲۱ء کو پارلیمنٹ میں جو جانکاری دی گئی تھی اس کے مطابق ریلوے میں دو لاکھ سینتیس ہزار دو سو پنچانوے (237295)وزارت داخلہ میں ایک لاکھ اٹھائیس ہزار آٹھ سو بیالیس (128842)محکمہ ڈاک میں نوے ہزار پچاس (90050)شہری دفاع میں دو لاکھ سینتالیس ہزار پانچ سو دو (247502)اور محکمہ انکم ٹیکس میں چھہتر ہزار تین سو ستائیس (76327)آسامیاں خالی ہیں، اگر ان تمام آسامیوں پر بحالی ہوجاتی ہے جو آسان نہیں ہے تو بھی دس لاکھ کی تعداد پوری نہیں ہوگی، الا یہ کہ وزیر اعظم پہلے کی طرح پکوڑے اور ٹائر پنکچر کو بھی روزگار میں شامل کر لیں، حالاں کہ اس کی شمولیت کے بعد بھی یہ سوال اپنی جگہ باقی رہے گا کہ کیا یہ خود کار نظام معاش بھی مرکزی سرکار کی ملازمت کے دائرے میں ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ سرکار نے برّی ، بحری اور فضائی افواج میں بھی چار سال کے لیے چھیالیس ہزار جوانوں کی بھرتی کا اعلان کیا ہے ، اس میں چھ ماہ کی تربیت بھی شامل ہے، اسے اگنی پتھ کا نام دیا گیا ہے،چار سال گذارنے کے بعد پچیس فی صد نوجوانوں کو مستقل ملازمت کا حصہ بنایا جائے گا اور بقیہ پچھہتر فی صد نوکری سے ہٹا دیے جائیں گے، ان کا مستقبل کیا ہوگا؟
اگنی پتھ کے ذریعہ بحال جوانوں کو اگنی ویر کا نام دیا گیا ہے، وزیر داخلہ امیت شاہ نے اعلان کیا ہے کہ ایسے جوانوں کو نیم فوجی دستوں میں ترجیحی بنیادوں پر بحال کیا جائے گا، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ انہیں چار سال کے بعد پنشن تو نہیں البتہ گیارہ لاکھ زائد کا پیکیج دیا جائے گا، جس سے وہ کوئی بھی منافع بخش کاروبار کر سکیں گے، اسی طرح یہ بھی قابل غور ہے کہ ایسے جوان جن کو معلوم ہے کہ وہ چار سال کے بعد ہٹا دیے جائیں گے ، مستعدی اور دل جمعی سے کام کر سکیں گے؟ اور ایسے غیر مستعد جوانوں سے ملک اور فوج کا کیا بھلا ہوگا۔
اس اعلان کے دوسرے دن ہی احتجاج اور مظاہرے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، ایسے نوجوان جنہوں نے فوج میں ملازمت کے حصول کی ساری کاروائیاں مکمل کر لی ہیں اور انہیں جوائننگ لیٹر نہیں ملا ہے، سڑکوں پر آگیے ہیں، بہار کے بکسر، بیگو سرائے اور مظفر پور میں اس تحریک کاروں کے اثرات کچھ زیادہ ہی دیکھنے کو ملے، اس اسکیم سے اختلاف فوج میں بھرتی ہونے والے جوانوں ہی کو نہیں، ان ماہرین کو بھی ہے جو فوج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں۔
ہندوستانی فوج کے سابق نائب سر براہ لیفٹنٹ جنرل رونت سنگھ کا کہنا ہے کہ چار سال کے اندر ان کے اندر ملک کے لیے جان قربان کرنے کا جذبہ ہی پیدا نہیں ہوگا، ایک دوسرے سابق نائب آرمی چیف کی رائے ہے کہ جو مدت فوجی تربیت کے لیے مقرر کی گئی ہے وہ نا کافی ہے، اتنی کم مدت میں سخت ترین تربیت دینا ممکن ہی نہیں ہے۔
عام لوگوں کا خیال یہ ہے کہ جس طرح اسرائیل میں سبھی کو فوجی تربیت لینی ضروری ہوتی ہے اور یہ مدت وہاں دو سال کی ہے، اسی طرح ہندوستانی حکومت یہاں ایک تجربہ کرنا چاہتی ہے، دھیرے دھیرے اس کا دائرہ وسیع کیا جائے گا، یہ ہوئی نہ بات آم کے آم گٹھلیوں کے دام کی۔