پورے ایک سال بیت گیے، ۲؍ مئی ۲۰۲۱ء بروز اتوار مطابق ۱۹؍ رمضان ۱۴۴۲ھ شام کے ساڑھے پانچ بجے حاجی پور کے معروف عالم دین ، سماجی کاموں کی جان، نون گولہ مسجد کے امام مولانا مقصود عالم قاسمی نے اس دنیا کو الوداع کہا تھا، ظاہری سبب برین ہیمریج تھا، پٹنہ کے میداز ہوسپیٹل میں بھرتی کرایا گیا تھا، لیکن جاں بر نہیں ہو سکے، جنازہ کی نماز ۳؍ مئی بروز سوموار دن کے دو بجے ان کے بھتیجہ حافظ محمد ارشاد نے کربلا واقع جڑھوا، حاجی پور کے میدان میں پڑھائی اور کربلاہی کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، مولانا لا ولد تھے، پس ماندگان میں اہلیہ اور سات بھائیوں اور ان کی اولاد واحفاد کو چھوڑا۔
مولانا مقصود عالم بن حاجی امام بخش انصاری (م ۲۰۱۶ئ) بن عبد الحکیم (م ۱۹۹۱ئ) کی ولادت ۸؍ اپریل ۱۹۶۳ء کو حاجی پور کے محلہ چھپی ٹولہ ، چوہٹہ نزد آر این کالج حاجی پور میں ہوئی، ابتدائی تعلیم ، فیض العلوم گول مری (ساکچی) جمشید پور میں حاصل کیا، ۱۹۸۰ء تک یہیں قیام پذیر رہے، ۱۹۸۱ء میں انہوں نے جامع العلوم مظفر پور میں داخلہ لیا، حفظ کی تکمیل کے بعد عربی کی ابتدائی تعلیم یہیں سے حاصل کی، ۱۹۸۸ء تک یہاں قیام رہا، پھر سال کے اخیر میں اعلیٰ تعلیم کے لیے دار العلوم دیو بند تشریف لے گیے، اور ۱۹۹۳ء میں فراغت حاصل کی، تدریسی زندگی کا آغاز انہوں نے ۱۹۹۴ء میں حاجی پور واقع مدرسہ انجمن اسلامیہ فلاح المسلمین سے کیا، اور ۱۹۹۷ء تک اسے تعلیمی اور تعمیری اعتبار سے ترقی سے ہم کنار کرنے میں مصروف رہے، لیکن جلد ہی وہ حاجی پور کی سیاست کے شکار ہو گیے اور انہوں نے اس ادارہ سے قطع تعلق کر لیا، امامت کے فرائض نون گولہ مسجد میں ادا کرتے رہے اور تقریبا تیس سال بلکہ آخری دم تک پوری دل جمعی اور مستعدی کے ساتھ کیا، شہر کی سماجی ، تعلیمی اور مذہبی پروگراموں میں شرکت بھی کرتے اور خود بھی انعقاد کراتے، بعض موقعوں پر مجھے بھی یاد کرتے اور میری تقریر کرواتے۔
علاقہ کے مدارس خصوصا مدرسہ فردوس العلوم لعل گنج کے بڑے معاون تھے، حاجی پور میں انہوں نے اس کے معاونوں کا مضبوط حلقہ تیار کر دیا تھا، وہ متمول خاندان کے چشم وچراغ تھے، شہر میں ان کی کپڑے کی دوکان آج بھی مشہور ہے، بھائیوں میں اتحاد واتفاق مثالی تھا، اس لیے مشترکہ خاندان کے ساتھ ہی انہوں نے زندگی گذاردی، ان کے تعلقات سسرال اور نانی ہال دونوں جگہ مضبوط تھے، ان کی نانی ہال نون گولہ حاجی پور ہی میں تھی ، نانا کا نام محمد ہاشم تھا، سسرال شیتل پور سارن میں تھا، سسرکا نام محمد نظام (م ۲۰۱۸ئ) تھا، شادی ۱۹۸۸ء میں ہوئی تھی۔
ویشالی ضلع میں عازمین حج کا تربیتی پروگرام وہ بہت پابندی سے کرتے تھے، ان کی سہولتوں کا پورا خیال رکھتے، مضبوط ضیافت کرتے، ہم لوگ بھی مدعو ہوتے، تربیتی گفتگو کا موقع مجھے بھی دیتے اور سراہتے۔
واقعہ یہ ہے کہ ویشالی ضلع میں ہر سال عازمین کے لیے دو تربیتی کیمپ لگا کرتا تھا، ایک کا انتظام مولانا مقصود عالم مرحوم کیا کرتے تھے، یہ حاجی پور میں لگتا تھا، مولانا مقصود عالم حج ٹرینرکی حیثیت سے اپنی ذمہ داری نبھایا کرتے تھے، دوسرا معیاری اور مثالی تربیتی کیمپ حاجی محمد اسماعیل اور برادران کے ذریعہ چھپرہ خرد ، سہان ویشالی میں منعقد ہوتا تھا، جس کے ٹرینر حاجی محمود عالم صاحب مصنف رہنمائے حج وزیارت ہوا کرتے تھے اور عازمین کو قیمتی تحائف دیا کرتے تھے، پھر کورونا آگیا تین سال حج کا سفر بند رہا، جن کے لیے تربیتی کیمپ لگاکرتا تھا اس کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی، اس بار اللہ اللہ کرکے یہ سلسلہ شروع ہوا ہے، لیکن مولانا مقصود صاحب رہے ہی نہیں، اس لیے ان کی جانب سے لگایا جانے والا کیمپ بند ہو گیا-
بعض وجوہات سے حاجی اسماعیل برادران کے ذریعہ لگایا جانے والا کیمپ بھی نہ لگ سکا ، ویشالی میں عازمین کی تربیت کے حوالہ سے سناٹا ہی پَسرا ہوا تھا، ایسے میں اللہ رب العزت نے مولانا نظر الہدیٰ قاسمی کو جو حج کمیٹی بہار کی جانب سے ٹرینر بھی ہیں، کھڑا کیا اور انہوں نے معہد العلوم الاسلامیہ چک چمیلی سرائے ویشالی میں ۶؍ جون ۲۰۲۲ء کو عازمین کے لیے تربیتی کیمپ کا انعقاد کیا ہے، اس طرح مولانا مقصود عالم مرحوم نے جو سلسلہ شروع کیا تھا، اس کو تسلسل عطا کرنے کا کام مولانا محمد نظر الہدیٰ قاسمی کے ذریعہ کیا جا رہا ہے، اللہ کرے یہ سلسلہ جاری رہے۔
اللہ تعالیٰ نے مولانا مرحوم کو ۲۰۰۶ء اور ۲۰۱۲ء میں حج کی سعادت نصیب فرمائی، حج کی تربیت کے معاملہ میں بھی سیاست نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا ایک دوسرے صاحب کھڑے ہوگیے ،پہلے تو انہوں نے جڑھوا اقلیتی ہاسٹل میں اس کام کو شروع کر دیا، اس طرح مولانا کاپروگرام ہلکا پڑنے لگا، وجہ یہ ہوئی کہ وہ دوسرے صاحب ٹیکہ کا انتظام اپنے کیمپ میں کر دیتے تو عازمین ایک پینتھ دو کاج کے جذبہ سے وہاں شریک ہوجاتے، بعد میں وہ صاحب سنگی مسجد حاجی پور میں پروگرام کرانے لگے-
حاجی پور میں مساجد بہت ہیں اور امام بھی ہر مسجد میں مقرر ہیں، لیکن چند اماموں کو اللہ نے خصوصی مقبولیت دے رکھی ہے، اور وہ زمانہ دراز سے اس فرض منصبی کو ادا کر رہے ہیں، ان میں مولانا مقصود عالم صاحب مرحوم، مولانا محمد اظہار الحق قاسمی ، چوک مسجد حاجی پور، ان کے بھائی صوفی مختار الحق للہی پوکھرا مسجد حاجی پور، حافظ عبد الحق صاحب امام مسجد باغ ملی حاجی پورکے نام خاص طور سے لیے جا سکتے ہیں، بقیہ مساجد کے امام ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔اس لیے ان کا فیض دیر پا نہیں ہوتا۔
مولانا واقعتا بافیض تھے، بدن بھاری اور چہرہ وجیہ تھا، دین کے سلسلہ میں حساس تھے، وہ مدرسہ اسلامیہ انوار العلوم پہاڑی چک دودھیلا میں صدر مدرس کے عہدے پر بھی فائز تھے۔ اس مدرسہ کے ذریعہ بھی انہوں نے علاقہ کی خدمت کی، مولانا کے اندر خاکساری تھی، تواضع اور انکساری تھی، لباس وپوشاک سے بھی ان کی نفاست جھلکتی تھی، خوش خوراک بھی تھے، قلب کے مریض ہونے کے بعد خورد ونوش پر پابندیاں تھیں، اس کے باوجود جسم وجثہ کے طول وعرض پر بڑا فرق نہیں پڑا، اللہ نے اپنے پاس بلا لیا ، تو بظاہر ایک خلا پیدا ہو گیا ہے، اس خلا کو پر کرنے والی ذات اللہ کی ہے اور وہ ضرور اس کی تلافی کرے گا۔