نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم، أما بعد! فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم: اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗٓ اُمَّهٰـتُهُمْ،صدق اللہ العظیم
محترم حضرات! حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں نمایاں اور ممتاز زوجہ محترمہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہیں، آپ ﷺ نے ان سے ان کی کم سنی میں نکاح فرمایا، پھر ان کی والدہ حضرت ام رومان رضی الله عنہا نے تین سال کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی کردی، اس وقت حضرت عائشہ کی عمر نو سال تھی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی کم سنی کو لے کر بیمار ذہنیت رکھنے والے اعتراض کرتے ہیں اور اعتراضات کا یہ سلسلہ نیا نہیں، پرانا ہے، پہلے بھی متعصب لوگوں نے اس معاملے کو لے کر اعتراضات کیے ہیں، اور اب بھی ہمارے ملک میں کچھ لوگ اپنی زہریلی سونچ کی بنیاد پر اعتراض کررہے ہیں، اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے کی وضاحت کی جائے، اور حضور اکرم ﷺ کے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا پس منظر، اس کی حکمتیں اور اس کے ذریعے امت کو ملنے والے فائدے وضاحت کے ساتھ بیان کیے جائیں، چنانچہ آج کے خطبے میں اسی موضوع پر اظہار خیال کیا جائے گا ، ان شاء اللہ!
نبی کی حیثیت عام انسانوں کی نہیں ہوتی، وہ خالق کائنات کا نمائندہ اور اس کی مرضیات کا ترجمان ہوتا ہے، اس کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، کھانا پینا، دوستوں اور دشمنوں کے ساتھ اس کا رویہ، سفر وحضر، غرض کہ زندگی کا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک حرکت وعمل انسانیت کے لئے اسوہ اور نمونہ ہوتا ہے، اس کے بولنے میں بھی انسانیت کے لئے سبق ہے اور اس کی خاموشی میں بھی، نبوت کا سلسلہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل ہوگیا۔
آپ ﷺ کے بعد نہ کوئی نبی آیا ہے اور نہ آسکتا ہے، اس لئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات سو دو سو اور ہزار دو ہزار سال کے لئے نہیں، بلکہ قیامت تک کے لئے نمونہ ہے، اور آپ کی سیرت وسنت کی اتباع میں آخرت کی بھی فلاح ہے اور دنیا کی بھی کامیابی ہے۔
زندگی کا ایک اہم شعبہ ازدواجی اور خاندانی زندگی ہے، جس سے ہر انسان گزرتا ہے، ہر شخص حاکم اور قاضی نہیں بنتا، ہر شخص تجارت اور کاروبار نہیں کرتا، اس میں کوئی شک نہیں کہ کارگاہِ عالم کا سارا نظام قانونِ زوجی پر مبنی ہے اور کائنات میں جتنی چیزیں نظر آرہی ہیں سب اسی قانون کا کرشمہ اور مظہر ہیں۔ (الذاریات:۴۹)
یہ اور بات ہے کہ مخلوقات کا ہر طبقہ اپنی نوعیت، کیفیت اور فطری مقاصد کے لحاظ سے مختلف ہے لیکن اصل زوجیت ان سب میں وہی ایک ہے۔ البتہ انواعِ حیوانات میں انسان کو خاص کرکے یہ ظاہر کیاگیا ہے کہ اس کے زوجین کا تعلق محض شہوانی نہ ہو بلکہ محبت اور انس کا تعلق ہو دل کے لگاؤ اور روحوں کے اتصال کا تعلق ہو۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے راز دار اور شریک رنج و راحت ہوں، ان کے درمیان ایسی معیت اور دائمی وابستگی ہو جیسی لباس اور جسم میں ہوتی ہے۔ دونوں صنفوں کا یہی تعلق دراصل انسانی تمدن کی عمارت کا سنگِ بنیاد ہے اس ربط و تعلق کے بغیر نہ انسانی تمدن کی تعمیر ممکن ہے اور نہ ہی کسی انسانی خاندان کی تنظیم۔
جب یہ قانونِ زوجی خالقِ کائنات کی طرف سے ہے تو یہ کبھی صنفی میلان کو کچلنے اور فنا کرنے والا نہیں ہوسکتا۔ اس سے نفرت اور کلی اجتناب کی تعلیم دینے والا بھی نہیں ہوسکتا؛ بلکہ اس میں لازماً ایسی گنجائش رکھی گئی ہے کہ انسان اپنی فطرت کے اس اقتضاء کو پورا کرسکے حیوانی سرشت کے اقتضاء اور کارخانہٴ قدرت کے مقرر کردہ اصول و طریقہ کو جاری رکھنے کے لیے قدرت نے صنفی انتشار کے تمام دروازے مسدود کردئیے، اور ”نکاح“ کی صورت میں صرف ایک دروازہ کھولا۔
کسی بھی آسمانی مذہب و شریعت نے اس کے بغیر مرد و عورت کے باہمی اجتماع کو جائز قرار نہیں دیا۔ پھر اسلامی شریعت میں یہاں تک حکم دیاگیا ہے کہ اس فطری ضرورت کو تم پورا کرو، مگر منتشر اور بے ضابطہ تعلقات میں نہیں، چوری چھپے بھی نہیں، کھلے بندوں بے حیائی کے طریقے پر بھی نہیں؛ بلکہ باقاعدہ اعلان و اظہار کے ساتھ، تاکہ تمہاری سوسائٹی میں یہ بات معلوم اور مسلم ہوجائے کہ فلاں مرد اور عورت ایک دوسرے کے ہوچکے ہیں۔
تقریبا ہر شخص خاندان کا حصہ ہوتا ہے، شادی بیاہ کے مرحلہ سے گزرتا ہے اور اس کے ذریعہ ایک نیا خاندان وجود میں آتا ہے، خاندان کا حصہ مرد بھی ہوتے ہیں اور عورتیں بھی ہوتی ہیں، اس کوقدم قدم پر رہنمائی کی ضرورت پیش آتی ہے، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو عام لوگوں کے مقابل زیادہ نکاح کی اجازت دی گئی، آپ نے مختلف قبائل میں نکاح کئے، جس سے اسلام کی اشاعت میں مدد ملی، خواتین نیز خاندانی زندگی سے متعلق احکام کی تفصیلات مہیا ہوئیں۔
آپ نے بحیثیت مجموعی جن خواتین سے نکاح کیا، ان کی تعداد گیارہ ہے، ان میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ سب کی سب بیوہ یا مطلقہ تھیں، آپ نے پہلا نکاح حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کیا جو عمر میں آپ سے پندرہ سال بڑی تھیں، اور ایک بیوہ خاتون تھیں، بچپن ۵۵؍ سال کی عمر ہونے تک آپ کے نکاح میں ایک ہی بیوی رہیں: حضرت خدیجہؓ اور ان کے بعد حضرت سودہؓ، زندگی کے آخری آٹھ سالوں میں بقیہ ازواج آپ کے نکاح میں آئیں۔
غرض کہ پہلا نکاح آپ نے پچیس سال کی عمر میں چالیس سال کی خاتون سے کیا، دوسرے: ایک کے سوا آپ کی تمام بیویاں بیوہ یا مطلقہ تھیں، تیسرے: جو انسانی زندگی میں اصل زمانۂ شباب ہوتا ہے، اس میں آپ نے ایک ہی بیوی پر اکتفا فرمایا اور عمر کے آخری مرحلہ میں متعدد نکاح کئے، اگر ان نکات کو ملحوظ رکھا جائے تو وہ بہت سے غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی، جو اعداء اسلام کی طرف سے پھیلائی جاتی ہیں،جن میں سے ایک حضرت عائشہؓ سے نکاح بھی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کا رشتہ پہلے جبیر ابن مطعم کے لڑکے سے طئے ہو چکا تھا، یہ خاندان ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا، جبیر کی بیوی نے کہا کہ اگر ابو بکر کی لڑکی ہمارے گھر آگئی تو ہمارا گھر بھی بددین ہو جائے گا، اس لئے ہم کو یہ رشتہ منظور نہیں (مسند احمد) اس لئے یہ رشتہ ختم ہو گیا، پھر جب حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہوگیا تو حضرت خولہؓ نے آپ سے حضرت سودہؓ اور حضرت عائشہؓ کا رشتہ پیش کیا، حضرت سودہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم عمر تھیں، آپ نے ان سے نکاح فرمایا اور بعض غیبی اشاروں کی بنا، پر حضرت عائشہؓ کے رشتہ کو بھی قبول فرمالیا، اور حضرت خولہؓ سے خواہش کی کہ وہ اس بات کو آگے بڑھائیں، حضرت خولہؓ نے حضرت ابو بکرؓ کے سامنے یہ بات رکھی۔
حضرت ابو بکر کو یوں تو یہ رشتہ دل وجان سے محبوب تھا، لیکن چوں کہ زمانہ جاہلیت میں منھ بولے بھائی کی بیٹی سے نکاح کو حرام سمجھا جاتا تھا، اس لئے اس پر تأمل ہوا، جب حضرت خولہؓ نے حضور سے یہ بات بتائی تو آپ نے فرمایا کہ ابو بکرؓ دینی بھائی ہیں نہ کہ سگے بھائی، اس لئے ان کی بچی سے میرا نکاح ہو سکتا ہے، تو پھر وہ کھٹک بھی دور ہوگئی، اس طرح حضرت عائشہؓ سے آپ کا نکاح ہوا، نکاح کے وقت راجح قول کے مطابق حضرت عائشہؓ کی عمر چھ سال تھی اور رخصتی کے وقت نو سال، دوسرے قول کے مطابق نکاح کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر اٹھارہ سال تھی، لیکن نو سال والی روایت کو امام بخاریؒ نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے، اور اہل علم کے نزدیک یہی روایت زیادہ صحیح ہے۔
حضرت عائشہؓ سے نکاح کے کئی بڑے فوائد:۔
ایک تو جاہلیت کی یہ رسم ختم ہو گئی کہ منھ بولا بھائی سگے بھائی کی طرح ہے اور سگے بھائی کی بیٹی کی طرح اس کی بیٹی سے بھی نکاح کی ممانعت ہے، اگر آپ نے اپنے عمل کے ذریعہ اس جاہلانہ رسم کے خاتمہ کا اعلان نہ کیا ہوتا، اور صرف زبانی ہدایت پر اکتفا کیا ہوتا تو شاید بھائی اور بھتیجی کے مصنوعی رشتہ کا تصور آسانی سے ختم نہیں ہوتا، اور صدیوں سے آئے ہوئے اس رواج کی مخالفت لوگوں کو گوارا نہیں ہوتی؛ لیکن جب آپ نے خود منھ بولے بھائی کی صاحبزادی سے نکاح کر لیا تو ہمیشہ کے لئے یہ تصور ختم ہوگیا۔
دوسرے: اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو غیر معمولی ذکاوت وذہانت سے نوازا تھا، 350؍صحابہ وتابعین نے ان سے حدیث حاصل کی اور ان سے جو حدیثیں منقول ہیں، ان کی تعداد 2210؍ ہے، (سیر اعلام النبلاء) سات صحابہ وہ ہیں، جن کو روایت حدیث میں مکثرین کہا جاتا ہے، یہ وہ صحابہ ہیں، جنھوں نے ایک ہزار سے زیادہ حدیثیں آپ سے نقل کی ہیں، ان میں جہاں چھ مردوں کے نام ہیں، وہیں ایک نام حضرت عائشہ صدیقہؓ کا بھی ہے، فتاویٰ میں بھی حضرت عائشہؓ کا پایہ بہت بلند تھا اور ان کا شمار عہد صحابہ کے ان اصحاب فتویٰ میں ہوتا تھا، جنھوں نے کثرت سے فتاویٰ دئیے ہیں۔
ماضی قریب کے معروف عالم وفقیہ ڈاکٹر رواس قلعہ جی نے حضرت عائشہؓ کے فتاویٰ کو ’’ موسوعہ فقہ عائشہ‘‘ کے نام سے جمع کیا ہے، جو ۷۶۷؍ صفحات پر مشتمل ہے، اس سے فقہ وفتاویٰ کے میدان میں ان کی خدمات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، عربی زبان میں ایک اصطلاح ’’استدراک‘‘ کی ہے، کسی شخص کی بات یا تصنیف میں کوئی غلطی یا غلط فہمی ہو گئی ہو تو اس کی اصلاح کو استدراک کہتے ہیں، حضرت عائشہؓ نے اکابر صحابہ پر استدراک کیا ہے، جس کو علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے ’’ عین الاصابۃ فی استدراک عائشۃ علی الصحابۃ‘‘ کے نام سے جمع کیا ہے، اور اہل علم کی رائے ہے کہ عموما ان استدراکات میں حضرت عائشہؓ کا نقطہ نظر زیادہ درست ہے۔
پھر یہ کہ حضرت عائشہؓ جیسی ذہین خاتون کے آپ کے نکاح میں ہونے کی وجہ سے خواتین اور خاندانی زندگی سے متعلق بہت سارے مسائل کا حل ان ہی کی روایات سے ہوا ہے؛ اس لئے امت کو آپ کے ذریعہ جو علمی اور فکری فائدہ پہنچا، وہ بظاہر کسی اور سے نہیں ہو سکتا تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۴۷؍ سال زندہ رہیں، اور ان کی ہدایت واصلاح اور تعلیم وتربیت کا چشمہ جاری رہا، کہا جاتا ہے کہ بیس سال میں ایک نسل بدل جاتی ہے، اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی دو نسلیں ان سے فیضیاب ہوئیں، یہ اسی لئے ممکن ہو سکا کہ وہ کم عمری میں آپ کے نکاح میں آگئی تھیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ اس نکاح کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سب سے بڑے معاون ومددگار حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے خاندان کو عزت سے سرفراز فرمایا، چار رفقاء نے سب سے بڑھ کر آپ کی مدد کی، ان میں سے دو حضرت ابو بکر وحضرت عمرؓ کی صاحبزادیوں کو آپ نے اپنے نکاح میں لے کر عزت بخشی، اور دو رفقاء حضرت عثمانؓ وحضرت علیؓ کے نکاح میں اپنی صاحبزادیوں کو دے کر عزت افزائی کی، اور اس طرح آپ نے ان چاروں دوستوں کی قربانی کے مقابلہ دلداری فرمائی۔
آپ حضرت ابو بکر کو کتنی ہی نعمتیں دے دیتے لیکن حضرت عائشہؓ سے نکاح کی وجہ سے اس خاندان کو جو عزت ملی، اور جو سعادت حاصل ہوئی، وہ کسی اور طرح نہیں ہو سکتی تھی؛ اس لئے نہ کبھی حضرت ابو بکر کو پچھتاوا ہوا کہ عمر کے کافی تفاوت کے ساتھ آپ نے اپنی صاحبزادی کا نکاح کر دیا اور نہ خود حضرت عائشہؓ کو؛ بلکہ وہ اس نسبت کو اپنے لئے باعث عزت وافتخار سمجھتے تھے، اور جب ایک موقع پر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو اختیار دیا کہ چوں کہ آپ کے ساتھ رہتے ہوئے بہت صبرو شکیب کی زندگی گزارنی پڑتی تھی، اس لئے ازواج مطہرات اگر چاہیں تو اپنے حقوق لے کر علیحدگی اختیار کر لیں تو سب سے پہلے حضرت عائشہؓ نے اس کو رد کر دیا، اور کہا کہ وہ ہر حال میں آپ کے ساتھ ہی رہیں گی، رشتہ نکاح کا تعلق اصل میں بیوی کے ساتھ ہوتا ہے، تو جب بیوی خود اس رشتہ کو اپنے لئے باعث سعادت سمجھتی ہو اور خوش دلی کے ساتھ باعث افتخار جانتے ہوئے اس پر راضی رہے تو کیسے کسی کو اس پر اعتراض کا حق ہو سکتا ہے؟
جہاں تک نکاح کے وقت کم سنی کی بات ہے تو اس کا تعلق اصل میں سماجی تعامل ورواج، موسمی حالات اور غذا سے ہے؛ اسی لئے مختلف علاقوں میں بلوغ کی عمریں الگ الگ ہوتی ہیں، عرب میں کم عمری میں لڑکیوں کے نکاح کا رواج تھا، عہد نبوت میں بھی اور آپ کے بعد بھی اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں، جن میں دس سال سے کم عمر میں لڑکیوں کا نکاح کر دیا گیا، اور جلد ہی وہ ماں بھی بن گئیں، خود حضرت عائشہؓ کے نکاح میں حضرت خولہ ؓ نے رشتہ پیش کیا، اور حضرت ابو بکرؓ نے رضاعی بھائی ہونے کا بھی عذر کیا، لیکن عمر کے تفاوت پر کسی تامل کا اظہار نہیں کیا، پھر یہ کہ حجاز کا موسم گرم ہوتا ہے اور اس زمانے میں وہاں کی غذا کھجور اور اونٹنی کا دودھ ہوا کرتا تھا، جس میں بہت زیادہ غذائیت پائی جاتی تھی؛ اس لئے وہاں کے حالات کو ہندوستان پر قیاس نہیں کرنا چاہئے۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ دنیا کے دوسرے مذاہب میں بھی کم عمر لڑکیوں کی شادی کا رواج رہا ہے، مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کسی کی بیوی نہیں بنیں، اور معجزاتی طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی؛ لیکن عیسائیوں کے بعض فرقوں کا خیال ہے کہ جوسف نامی شخص سے حضرت مریمؑ کا نکاح ہوا تھا، اس وقت جوسف کی عمر ۹۹؍ برس اور حضرت مریم کی بارہ برس تھی، ۱۹۸۳ء تک کیتھولک کینان نے اپنے پادریوں کو بارہ سال کی لڑکی سے شادی کرنے کی اجازت دے رکھی تھی، ۱۹۲۹ء سے پہلے برطانیہ میں چرچ آف انگلینڈ نے بھی بارہ سال کی لڑکی سے شادی کی اجازت دی تھی، امریکہ کے اسٹیٹ آف ڈیلویرا میں ۱۸۸۰ء تک لڑکی کی شادی کی کم سے کم عمر ۸؍ سال اور کیلی فورنیا میں ۱۰؍ سال مقرر تھی، یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی بعض ریاستوں میں لڑکیوں کی شادی کی عمر کافی کم رکھی گئی ہے۔
امریکہ کی ایک ریاست ’’ میسیچوسس‘‘ ہے، جہاں لڑکیوں کی شادی کی عمر ۱۲؍ سال مقرر ہے، اور ایک دوسری ریاست نیوہیمسفر‘‘ میں ۱۳؍ سال مقرر ہے۔اگر ہندو مذہب کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں کم عمری کی شادی کی بہت حوصلہ افزائی کی گئی ہے، منوسمرتی میں ہے کہ لڑکی کے بالغ ہونے سے پہلے اس کی شادی کر دینی چاہئے، (گوتما: ۱۵۔۔۲۱) اور یہ کہ باپ کو چاہئے کہ اپنی لڑکی کی شادی اسی وقت کر دے جب وہ بے لباس گھوم رہی ہو؛ کیوں کہ اگر وہ بلوغت کے بعد بھی گھر میں رہے تو اس کا گناہ باپ کے سر ہوگا۔ (بہ حوالہ: many ix, 88,htpp:/www.payer.de.dharam shastra/dharmash083 htm)منوسمرتی میں میاں بیوی کی شادی کی عمر یوں مقرر کی گئی ہے: لڑکا 30؍ سال اور لڑکی 12؍ سال، یا لڑکا 24؍سال اور لڑکی 8؍ سال کی ۔مہا بھارت میں شادی سے متعلق جو ہدایت دی گئی ہے، اس میں لڑکی کی عمر 10؍ سال اور7؍ سال ہے، جب کہ شلوکاس میں شادی کی کم از کم عمر ۴؍ سے ۶؍ سال اور زیادہ سے زیادہ ۸؍ سال مقرر ہے۔
آج کل برادران وطن رام جی کو سب سے آئیڈیل شخصیت مانتے ہیں تو رامائن سے پتہ چلتا ہے کہ رام اور سیتا کی شادی کے وقت سیتا کی عمر صرف چھ سال تھی (رامائن، ارینہ کانڈ، سرگ: ۴۷، اشلوک: ۱۱،۴،۱۰) غرضیکہ کم عمری میں لڑکی کا نکاح اور بیوی وشوہر کے درمیان عمر کا فرق طرفین کی باہمی رضامندی، معاشی رواج، موسم، صحت اور بلوغ سے متعلق ہے، مشرق ومغرب کے اکثر سماج میں کم عمر لڑکیوں کا نکاح ہوتا رہا ہے، مختلف مذہبی کتابوں میں نہ صرف اس کی اجازت دی گئی ہے؛ بلکہ اس کی ترغیب دی گئی ہے، اور خاص کر ہندو سماج میں اس کا رواج زیادہ رہا ہے، اور مذہب کی مقدس شخصیتوں نے اس عمر میں نکاح کیا ہے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ