بھاجپا کے ایک ترجمان کے مطابق تیس ہزار سے زائد مساجد اس وقت فرقہ پرستوں کے نشانے پر ہے ، بابری مسجد ہاتھ سے نکل گئی، گیان واپی مسجد پر عدالتی کارروائی چل رہی ہے اور جلد ہی اس کے بارے میں کوئی فیصلہ سامنے آنے والا ہے، دہلی کی درجنوں مسجد میں نماز پر پابندی لگانے کے لیے عدالتوں میں درخواستیں زیر غور ہیں۔
قطب مینار کے قریب احاطہ میں واقع مسجد میں نماز پر پابندی لگادی گئی ہے اور پوجا کی اجازت کے لیے عرضی لگائی جا چکی ہے، جمہوریت کے تمام ستون اس طرح منہدم ہو چکے ہیں کہ اقلیتوں کی کوئی سن نہیں رہا ہے اور ایک خاص فرقہ کو خوش کرکے تکثیری سماج کے بل پر سب کچھ بدلا جا رہا ہے، ایسے میں پورا ملک یہ جاننا چاہ رہا ہے کہ موجودہ حالت میں مساجد کے تحفظ کی کیا شکل ہو سکتی ہے۔
مسلم تنظیموں کے ذریعہ مختلف سطح پر میٹنگیں ہو رہی ہیں، لیکن یہ الگ الگ میٹنگیں مسلمانوں کے درمیان آپسی اختلاف وانتشار کی مظہر ہیں، اتحاد امت کی کوشش کو اس سے بھی نقصان پہونچ رہا ہے، اس لیے ملت کے کاز اور مساجد کے تحفظ کے لیے متحدہ لائحہ عمل کی ضرورت ہے، جو بد قسمتی سے مختلف میٹنگوں کے باوجود عملی طور پر اب تک مسلمانوں کے سامنے نہیں آسکا ہے، اس سلسلے کی پہلی میٹنگ ماضی قریب میں محمود پراچہ نے بلائی تھی ، لیکن بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی اور اب محمود پراچہ کے اس کام میں غفلت اور بد عنوانی کے چرچے بھی عام ہیں، اس لیے پہلا کام تو یہی ہے کہ ہم آپس میں اتحاد پیدا کریں، مخلص اور غیر مخلص کو پہچانیں، ہر آدمی کے اندر اللہ رب العزت نے ایک قوت تمیزی رکھی ہے ، جس کے ذریعہ ملک وملت کے مخلصین کی پہچان کی جا سکتی ہے۔
یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ خلوص کے ناپنے کا کوئی پیمانہ آج تک ایجاد نہیں ہوا، اور یہ خالص دل کی کیفیت کا نام ہے، لیکن جب دل کی کیفیت عمل کے سانچے میں ڈھلتی ہے تو پتہ چل جاتا ہے کہ کون ملت کی بر تری کے لیے کام کر رہا ہے اور کس کے پیش نظر ملت فروشی ہے، تاریخ کا اگر آپ کے پاس تھوڑا بھی علم ہے تو کئی لوگ سے آپ بھی واقف ہوں گے ۔
دوسرا کام اپنے عمل کی اصلاح ہے، ایمان وعقیدہ کی پختگی کے ساتھ عمل صالح کو زندگی کالازمہ بنانا چاہیے، ایمان تصدیق قلبی ہے اور عمل صالح اس کا خارجی مظہر اسی لیے ایمان کے ساتھ قرآن کریم میں بار بار عمل صالح کا ذکر کیا گیا ہے، خسران اور گھاٹے سے نکلنے کے لیے جن چار چیزوں کا قرآن میں ذکر ہے ان میں دو ایمان اور عمل صالح ہے، ہم دونوں میں کمزور واقع ہوئے ہیں، مواقع ملتے ہی ہمارا ایمان ڈگمگانے لگتا ہے اور ہمارے اعمال شرعی کم، غیر شرعی اور سماجی قسم کے زیادہ ہو گیے ہیں، ہم نے رسم ورواج اور اوہام کو اس قدر اوڑھ لیا ہے کہ دین کی اصل تصویر اور شبیہ غائب سی ہو گئی ہے، ایسے کمزور ایمان اور ایسی بد عملی اور بے عملی کے ساتھ اللہ کی نصرت کس طرح آسکتی ہے اور ہم اللہ کی نصرت قریب ہے، کا اعلان کن بنیادوں پر کر سکتے ہیں۔
مسجدوں کے تحفظ کے لیے تیسرا بڑا کام جماعت کی پابندی کے ساتھ نما ز کی ادائیگی ہے، جن مسجدوں کو ہم نے خود ویران کر دیا،نقل مکانی کرتے وقت ہمیں یہ یاد نہیں رہا کہ یہاں ایک اللہ کا بھی گھر ہے، پنجاب اور ہریانہ میں بہت ساری مسجدیں ایسی ہیں جہاں سے مسلمان نقل مکانی کر گیے اور آج وہ جانوروں کے طویلہ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے، اس کے علاوہ بہت ساری مسجدیں ایسی ہیں جو غیر مسلموں کے علاقہ میں ہیں،انہیں بھی ہم نے اللہ بھرسے چھوڑ رکھا ہے، امام ، مؤذن اپنی ڈیوٹی انجام دے رہا ہے، اور ہماری حاضری ان مسجدوں میں نہیں ہو رہی ہے، دھیرے دھیرے وہ بھی غیر مسلموں کے قبضے میں چلی جا رہی ہیں۔
کئی مسجدوں کے بارے میں یہ خبر آتی رہی ہے کہ اس کے تقدس کو غیر مسلموں نے بچا رکھا ہے، کوئی اذان دینے والا نہیں ہے تو ٹیپ رکارڈ کی مدد سے وقت پر اذان ہو رہی ہے، لیکن یہ ہماری بے عملی کا مظہر ہے،اس لیے ہمیں تمام مساجد میں عموما اور غیر مسلم علاقوں میں خصوصا مسجدوں کو آباد رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، ممکن ہے ایسی مساجد ہمارے گھروں سے دور ہوں اور اس کے لیے ہمیں جانا پڑے،لیکن مسجد کے تحفظ کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے، پھر ہر قدم پر ایک نیکی کا فرمان بھی موجود ہے،اللہ کے گھر کو آباد کرنے کے لیے جو قدم آپ کا اٹھے گا اس کے ہر قدم پر ایک نیکی تو پکی ہے، اس کے علاوہ جس نیت سے آپ جا رہے ہیں اس میں اس ثواب کے زیادہ بڑھ جانے کا امکان ہی نہیں، یقین ہے۔
ملک میں جو نفرت کی لہر چل رہی ہے اور جس طرح غلط بنیادوں پر مسلمانوں کو مطعون کیا جا رہا ہے اور ذرائع ابلاغ جھوٹ کی کھیتی کر اسے پھیلانے میں لگا ہے، ایسے میں یہ بات ضروری ہے کہ مسجد کا اندرونی حصہ بھی ہر وقت ہماری نگاہوںکے سامنے رہے ، اس کے لیے مساجد میں سی سی ٹی وی کیمرے لگانا بھی تحفظ کے نقطۂ نظر سے ضروری معلوم ہوتا ہے، ہو یہ رہا ہے کہ دوسرے مذہب کے لوگ مسجد میں ممنوعہ اشیاء ڈال کر مسلمانوں کو بدنام کرنے کی مہم چلاتے ہیں، سی سی کیمرہ سے حقیقت کا پتہ چلے گا اور ہمارے لیے یہ ممکن ہو سکے گا کہ ہم دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی لوگوں کے سامنے لا سکیں، ہمیں معلوم ہے کہ تمام مساجد میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہوگا، لیکن جتنی مسجدوں کو ہم کیمرے کی زد میں رکھ سکتے ہوں، ہمیں اس کا انتظام کرنا چاہیے۔
۱۹۹۱ء میں مذہبی عبادت گاہوں کے تحفظ کا ایک قانون بنا تھا، جس میں یہ کہا گیا تھا کہ ۱۹۴۷ء میں جو عبادت گاہ جس طرح تھی اور جس کے قبضے میں تھی اس کے خلاف کسی بھی عدالت میں معاملہ قابل سماعت نہیں ہوگا، اس قانون کی ان دیکھی کی جا رہی ہے، اس قانون کی رو سے عدالتوں کو پہلے مرحلہ میں ہی ایسی عرضیوں کو نا قابل مسموع قرار دے کر خارج کر دینا چاہیے تھا، لیکن ایسا ہو نہیں رہا ہے ، عدالتیں سروے کا آرڈر بھی دے رہی ہیں اور ان پر سماعت بھی کی جا رہی ہے، یہ صراحتاً ۱۹۹۱ء کے قانون کے خلاف ہے۔
اگر ہم عدالت کو یہ سمجھا سکیں اور ہمارے قابل وکلاء جج حضرات کے سامنے اس قانون کے تقاضوں کو برتنے کی ضرورت واضح کر سکیں تو فرقہ پرستوں نے جو طویل سلسلہ مساجد اور عبادت گاہوں کو نزاعی بنانے کا شروع کر رکھا ہے اس پر لگام لگائی جا سکتی ہے، حکومت تو انہیں کی ہے اس لیے حکومت سے کوئی امید لگانا تو فضول اور احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے، لیکن عدالتیں اگر اپنے تحفظات سے اوپر اٹھ کر کام کریں تو اس قانون کا اطلاق ونفاذ محال نہیں ہے۔
ایک اور مسئلہ جس کی طرف ہماری توجہ کم جاتی ہے وہ ہے نئی تعمیرکے وقت مساجد میں استعمال ہونے والے سامان کا انتخاب، ہمیں چاہیے کہ ہم جو مساجد بلکہ گھر بھی تعمیر کریں تو ایسی اینٹیں نہ لگائیں جن کا برانڈ رام، گوپال، سیتا، کرشن، کنہیا وغیرہ ہو، اسی طرح تمام تعمیرات میں اسلامی ثقافت کو نمایاں رکھیں، غیر مسلم عبادت گاہوں کے طرز وانداز سے سختی سے گریز کریں، کیوں کہ ایک سو سال کے بعد ان مساجد سے نکلنے والی اینٹیں اور ان کے نقش ونگار مندر کے کھنڈرات معلوم ہوں گے اور ان پر قبضہ کی مہم چلے گی ، اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو لیکن احتیاط کرنے میں حرج ہی کیا ہے ۔
ہماری مسجدیں اپنی ملکیت والی زمینوں پر تعمیر ہیں،یہ ایک حقیقت ہے، اسی لیے نیشنل ہائی وے کو فور لائن کرتے وقت ہماری مسجدیں اس کی زد میں نہیں آتیں، جب کہ ایک خاص فرقہ کی عبادت گاہیں کثرت سے سڑک کی زمین پر واقع تھیں، جنہیں منتقل کرنا پڑا، آئندہ بھی ہماری کوشش رہنی چاہیے کہ چھجے وغیرہ کی حد تک بھی ہم غیر قانونی طور پر تعمیرات کو آگے نہ بڑھائیں، تاکہ تجاوزات کے نام پر ہماری مسجدوں پر بلڈوزر نہ چلایا جائے، ہمیں معلوم ہے کہ جب ظالم کی نیت بدلتی ہے تو دلیل اور حجت کام نہیں آتی، پھر بھی ہمیں محتاط رہنا چاہیے۔
مساجد کی آراضی اور عمارت کے تحفظ کا ایک طریقہ رجسٹریشن ہے، یہ رجسٹریشن وقف بورڈ میں بھی کرایا جا سکتا ہے اور ٹرسٹ کے ذریعہ بھی ، وقف بورڈ کی جو حالت رہی ہے اس میں ایسا دیکھا گیا ہے کہ متولی اور کمیٹی کے بدلنے کے نام پر مقامی اور سرکاری سطح پر نئے نئے تنازعات سامنے آتے رہتے ہیں۔
اس لیے وقف بورڈ سے رجسٹرڈ کرانے میں وثیقہ جات میں ایسے اندراجات وکلاء کے مشورے سے ہونے چاہیے جس کی وجہ سے آئندہ کسی قسم کا نزاع نہ پیدا ہو، یہ نزاعات مسلک کے نام پر نئی کمیٹی بنا کر بھی کھڑے کیے جاتے رہے ہیں، میں نے مسلک کے نام پر مساجد کی قیمت لگاتے ہوئے مسلمانوں کو دیکھا ہے، ان سب سے بچانے کے لیے مضبوط دستاویز بنا یا جائے اور وہی وقف بورڈ میں داخل کیا جائے اس کے لیے وقف بورڈ میں ایک فارم دستیاب ہے اس کو بھر کر جمع کرنے کے بعد انکوائری ضلعی کمیٹیوں کے ذریعہ کرائی جاتی ہے اور رپورٹ کو سامنے رکھ کر اسے وقف بورڈ میں رجسٹرڈ کردیا جاتا ہے۔
رجسٹریشن ٹرسٹ کے ذریعہ مقامی رجسٹری آفس میں بھی کرایا جا سکتا ہے، ٹرسٹ میں خدشات کم ہیں اور معاملہ ٹرسٹ کے ممبران تک محدود رہتا ہے، لیکن قانونی طور پر اس عمل سے مسجد کو تحفظ حاصل ہوجاتا ہے، ابھی اوقاف کے سروے کا کام چل رہا ہے، مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنی مساجد ، قبرستان ، مدارس وغیرہ کو اس میں رجسٹرڈ کرادیں، سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پہلے سے جو اوقاف رجسٹرڈ نہیں ہیں ، ان کا بھی سروے میں اندراج کرایا جا سکتا ہے۔
کیوں کہ وہ زمانہ قدیم سے اسی کام کے لیے وقف ہیں، اورمنشاء واقف کے مطابق کام ہو رہا ہے، البتہ وہاں اندراج پر سخت نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے، ورنہ سرکاری کارندے کبھی قبرستان کو ’’کبیر استھان‘‘ اور گورستان کو’’ گئو استھان‘‘ لکھنے سے بھی باز نہیں آتا، اگر ایسا ہوا تو سروے کے بعد بھی مسائل کھڑے ہوں گے، ضرورت مسلمانوں کو مستعد ہونے اور رہنے کی ہے، ورنہ نفرت کی آندھی میں سب کچھ اڑتا چلا جائے گا۔