بی جے پی کے دو رہنماؤں کی جانب سے پیغبر اسلام ﷺ سے متعلق متنازع بیانات کے بعد بڑھتے ہوئے غصے کو دیکھ کر ہندوستان اسلامی دنیا میں اپنے دوست ممالک کو وضاحتیں دینے پر مجبور ہو گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پر بی جے پی کا ردعمل شاید اب کافی نہ ہو کیونکہ اب ملک کے اندورنی معاملے نے بین الاقوامی نوعیت اختیار کر لی ہے۔ کویت، قطر اور ایران نے ہندوستان کے سفیروں کو بلا کر ان بیانات پر اپنا احتجاج ریکارڈ کیا ہے۔ سعودی عرب، ملیشیا، افغانستان، پاکستان، مالدیپ اور دیگر ممالک نے بھی ان بیانات کی مذمت کی ہے۔
قطر کی وزارت خارجہ نے دوحہ میں انڈیا کے سفیر دیپک متل کو طلب کر کے انڈیا سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔ قطر کی وزارت خارجہ کے مطابق اس طرح کے اسلام فوبیا پر مبنی ریمارکس کو بغیر سزا کے چھوڑ دینا، انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ کسی ملک نے ہندوستان سے کہا کہ وہ معافی مانگے۔ سعودی عرب نے اپنے بیان میں کچھ سخت الفاظ بھی استعمال کیے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت اور حکومت کی طرف سے بھی اس معاملے پر بیان دینا چاہیے۔ ان کے مطابق ایسا نہ کرنے کی صورت میں ہندوستان کے ان اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔
خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے ساتھ ہندوستان کی تجارت، جس میں کویت، قطر، سعودی عرب، بحرین، عمان اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں، سال 2020-21 میں 87 ارب ڈالر تک رہی۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے لاکھوں شہری ان ممالک میں کام کرتے ہیں اور لاکھوں ڈالر وطن بھیجتے ہیں۔ یہ خطہ ملک کی توانائی کی درآمدات کا بھی سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
ماہرین نے کہا کہ یہ تنازعہ ملک کی حالیہ کامیابیوں کو ماند کر سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایک ایسا بحران ہے جو سفارت کار چاہتے ہیں کہ نہ ہی ہو تو بہتر ہے۔ ہم اپنے دوستوں کے حلقے کو بڑھانے کی پوری کوشش کرتے ہیں، اور جب ایسا ہوتا ہے تو یہ کوئی اچھی پیشرفت نہیں ہوتی۔ دیگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس تنازعے کے اثرات ملک کے مفادات کو بہت نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
عرب ممالک بھی اپنے ہی عوام کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ٹھوس اقدام اٹھانا چاہتے ہیں۔ ہندوستان پر تنقید کرنے والے ہیش ٹیگز ان ممالک میں ٹرینڈ کر رہے ہیں اور یہ واقعہ ان کے میڈیا میں ٹاپ سٹوری بن گیا ہے۔ ان ہیش ٹیگز میں سے کچھ نے ملک کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا ہے۔ قطر اور کویت میں کچھ دکانوں کی جانب سے ہندوستانی مصنوعات کو ہٹانے کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
مائیکل کوگلمین کے مطابق خلیج تعاون کونسل اور ہندوستان کے درمیان تعلقات دونوں کے لیے اہم ہے اور دونوں فریق خطرات کو کم کرنے پر غور کریں گے۔ ان کے خیال میں جہاں ایک طرف دلی کو اس طرح کے واقعات پر عرب ممالک کے ناراض ردعمل کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے، تو دوسری جانب ہندوستان کی اپنی خاص اہمیت بھی اسے مزید نقصان سے بچاتی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ 2014 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہندوستان میں مذہبی تقسیم میں اضافہ ہوا ہے اور گذشتہ چند ہفتوں میں خاص طور پر اس وقت کشیدگی پیدا ہوئی جب کچھ ہندو گروپ وارانسی کی ایک مقامی عدالت میں صدیوں پرانی مسجد میں پوجا کرنے کی اجازت طلب کرنے گئے۔ ٹی وی چینلز پر اشتعال انگیز بحث دیکھنے میں آئی ہے اور سوشل میڈیا پر بھی اس معاملے پر بے تحاشا نفرت دیکھی گئی ہے۔
(بشکریہ بی بی سی اردو)