سری لنکا ایک چھوٹا سا ملک ہے، ہندوستان کے نقشے میں چھوٹا ساجو لٹکا ہوا نظر آتا ہے وہی سری لنکا ہے، سری لنکا کی اہمیت ہندوؤں کے نزدیک ہندوستانی دیو مالائی روایات کے مطابق سیتا جی کے اغوا کی کہانی سے جڑے ہونے کی وجہ سے ہے، راون، ہنومان، رام اور سیتا اس کہانی کے مرکزی کردار ہیں اور جس لڑائی کی وجہ سے سونے کی لنکا کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا تھا ، اس کا مظاہرہ ہر سال ’’راون دہن‘‘ کے ذریعہ ہر چھوٹے بڑے شہر اور گاؤں میں کیا جاتا ہے، ہندوستان اور سری لنکا کے درمیان رام تالاب کی کھدائی کا نزاع بھی قدیم ہے، یہاں ہندوستانی نزاد تامل اور سری لنکا کے سنہالیوں کے درمیان خون ریز لڑائیاں ہوتی رہی ہیں، یہ لڑائیاں ۱۹۸۳ء سے ۲۰۰۹ء تک جاری رہیں۔
سری لنکا 1815ء سے برطانیہ کی نو آبادی تھی، اسے 4؍ فروری1948ء میں آزادی نصیب ہوئی، یہاں سنہالیوں کی آبادی ۹ء۷۴؍ فی صد اور تاملوں کی ۲ء ۱۱؍ فی صد ہے، مذہب کی بنیاد پر یہاں کی آبادی کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ یہاں بدھسٹوں کی آبادی ۲ء ۷۰، ہندوؤں کی ۶ء ۱۲؍ مسلمانوں کی ۷ء ۹ ؍ اور عیسائیوں کی ۴ء ۷؍ فی صد ہے، سری لنکا کا پورا نام ڈیموکریٹک سوشلسٹ ری پبلک ہے۔
گذشتہ ستر سالوں میں وقفے وفقے سے دائیں اور بائیں بازو کے درمیان یہاں کی حکومت بدلتی رہی ہے ، سری لنکا فریڈم پارٹی کی بنیاد بندرانا ئیکے نے ڈالی تھی، تین سال انہوں نے حکومت بھی کی ،پھر انہیں قتل کر دیا گیا، یہاں سری ما بندر انا ئیکے نے ۱۹۷۰ء سے ۱۹۷۷ء تک حکومت کی، ۱۹۷۷ء سے ۱۹۸۹ء تک بارہ سالہ اقتدار جے وردھنے کے پاس رہا، وزیر اعظم کی حیثیت سے ملک کی باگ ڈور ایک سال اور صدر کی حیثیت سے گیارہ سال ان کے ہاتھ رہی۔
بائیں بازو کی یونائیٹیڈ نیشنل پارٹی کے قائد کی حیثیت سے چندریکا کمارا تنگا نے ۱۹۹۴ء سے ۲۰۰۰ء تک بحیثیت صدر کام کیااس درمیان وزیر اعظم ان کی والدہ رہیں، ۲۰۰۶ء میں ایک بڑی تبدیلی یہ ہوئی کہ سری لنکا فریڈم پارٹی کی قیادت جندریکا کے ہاتھ سے نکل کر مہندرا راج پکشے کے ہاتھ آگئی اس وقت سے سیاست میں پکشے خاندان کا عروج شروع ہوا، اور دھیرے دھیرے یہ سری لنکا کا سب سے با وزن ، با اختیار اور با اثر خاندان بن گیا، ۲۰۱۸ء میں یہ خاندان پھر سے بر سر اقتدار آ گیا اور اتفاق سے دو حقیقی بھائی یہاں کی سیاست پر قابض ہو گیے۔
وزیر اعظم مہنداراج پکشے اور صدر گوبابا راج پکشے کے ساتھ اسی خاندان کا ایک فرد وزیر خزانہ بھی بن گیا، اور انہوں نے بھاجپا کی طرح وہاں اکثریت کے ووٹوں کی سیاست شروع کر دی تاکہ ان کا اقتدار دیر تک باقی رہے ، جس نے حکومت کی مخالفت میں کچھ لکھایا بولا اسے گولی مار دی گئی ، یا اسے مجبور ہو کر ملک بدر ہوجانا پڑا، لاسنتا وکرما تنگے، پکشے حکومت پر تنقید کرتے رہتے تھے، انہیں گولی مار دی گئی ، بدھسٹ مذہبی پیشواؤں نے حلال گوشت کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا، عوامی مقامات پر برقع پہن کر جانے پر پابندی لگادی گئی، مسجدوں پر حملے کیے گیے، ہندوستان کے یونیفارم سول کوڈ کی طرح وہاں کی حکومت نے ’’ایک ملک ایک قانون‘‘ کی ترتیب کے لیے جو کمیٹی بنائی اس کی قیادت مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والے شخص ’’گالا گوداتا گنا نا سارا‘‘ کو سونپ دی گئی۔
ملک کی معیشت بدحال ہوتی رہی اور حکومت سنہالیوں کو بدھ ازم کی گولیاں دے دے کر سلاتی رہی ، سنہالی خوش تھے کہ ملک بدھسٹ بن رہا ہے، اور دیگر مذاہب کے لوگ دوسرے درجہ کے شہری بنتے جا رہے ہیں، جیسا کہ ہندوستان کے غیر مسلم اور فرقہ پرست سوچتے ہیں، آخر میں نوبت یہاں تک پہونچی کہ ملک کنگال ہو گیا، اب لوگ روٹی کے لیے پریشان ہیں، جنگ شروع ہوگئی، ضروری غذائی اجناس اور پٹرول وڈیزل خریدنے کے لیے مارکیٹ میں روپے نہیں رہے، اس لیے پیٹ کی آگ باہر نکل کر عمارتوں تک منتقل ہو گئی ہے۔
وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر حملے ہوئے، ایک وزیر کی خود کشی کی خبر بھی سوشل میڈیا پر آ رہی تھی، حالات اس قدر خراب ہوئے کہ پوری کابینہ کو مستعفی ہوجانا پڑا، اوروزیر اعظم مہنداراج پکشے کو استعفیٰ کے بعد زندگی بچانے کے لیے اپنے خاندان کے ساتھ کولمبو سے سینکڑوں میل دور ٹرنکوں مالی کے ایک بحری اڈہ میں پناہ گزیں ہوجانا پڑا، صدر گوٹ بابا راج پکشے نے نئے وزیر اعظم تہتر سالہ سیاسی رہنما رانیل وکرما سنگھے کا تقرر کیا، یہ پانچ بار پہلے بھی مختلف موقعوں پر وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔
وکرما سنگھے نے۱۹۹۳ء سے ۱۹۹۴ء ، ۲۰۰۱ء سے ۲۰۰۴ئ، ۲۰۱۵ء سے ۲۰۱۸ء اور ۲۰۱۸ء سے ۲۰۱۹ء تک بحیثیت وزیر اعظم ملک کی خدمت کی ہے، وہ۱۹۹۴ء سے یو ان پی کے قائد ہیں، ۱۹۹۴ء سے ۲۰۰۱ء اور ۲۰۰۴ء سے ۲۰۱۵ء تک حزب مخالف کے لیڈر رہے ہیں، ان کے پاس سری لنکا کی سیاست وقیادت کا طویل تجربہ ہے، اس کی وجہ سے لوگوں کو امید ہے کہ وہ سری لنکا کو موجودہ بحران سے نکالنے میں کامیاب ہوں گے، صدر نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ حکومت میں نو جوانوں کو موقع دیا جائے گا، اور نئی حکومت میں پکشے خاندان کا کوئی فرد شامل نہیں ہوگا۔
سری لنکا چین کے قرض میں سر سے پاؤں تک ڈوبا ہوا ہے، بڑا علاقہ اس کے پاس لیز پر ہے، امریکہ سری لنکا میں چین کی بڑھتی سرگرمیوں کا مخالف ہے، ہندوستان بھی اس معاملہ میں امریکہ کی رائے سے اتفاق کرتا ہے، کیونکہ چین سے ہندوستان کے تعلقات زمانہ دراز سے خراب ہیں، اور اب بھی وہ ہندوستان کو وقفے وقفے سے آنکھ دکھاتا رہتا ہے، وہاں کی معیشت کے برباد کرنے میں پکشے برادران کا بڑا ہاتھ رہا ہے، ۲۰۱۸ء میں بر سر اقتدار آنے کے بعد تاجروں کو خوش کرنے کے لیے ٹیکسوں میں بھاری کمی کر دی گئی، جبکہ چین کے قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا گیا۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے سری لنکا نے جو قرض لیا تھا اس کے ویلو ایڈیڈ ٹیکس (VAT)کو مالیاتی فنڈ نے بڑھا کر گیارہ فی صد سے پندرہ فی صد کر دیا، پیداوار میں کمی آئی تو بجٹ کا خسارہ بڑھنے لگا اور قرض کی مقدار بھی بڑھتی چلی گئی، اس وقت ملک کا قرض جی ڈی پی(GDP) کا ڈیڑھ سو فی صد ہے، ایسے میں اب اسے قرض دینے کو کوئی تیار نہیں، بعض ملک انسانی بنیادوں پر مدد کر رہے ہیں، جن میں ایک ہندوستان بھی ہے، جنوری ۲۰۲۲ء سے اب تک ہندوستان تین ملین امریکی ڈالر سری لنکا کو دے چکا ہے۔ لیکن وہاں کے اقتصادی بحران پر قابوپانے کے لیے دوسرے ملکوں کو بھی آگے آنے کی ضرورت ہے۔
سری لنکا کے موجودہ حالات ذرا تفصیل سے اس لیے پیش کیے گیے کہ ہندوستان بھی سری لنکا کی طرح اقتصادی بحران کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے ، یہاں بھی اسی(۸۰) اور بیس(۲۰) فی صد کا نعرہ لگا کر ہندوتوا کے راہ پر ایک خاص مذہب کے لوگوں کو ڈالا جا رہا ہے اور یہاں کی بڑی اکثریت مطمئن ہے کہ ملک ہندو راشٹر کی طرف بڑھ رہا ہے، اور اقلیتوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کے لیے منصوبہ بند انداز میں کام ہو رہا ہے یہی سب کچھ سری لنکا میں ہو رہا تھا، لیکن جب آگ لگی تو پورا ملک اس کی زد میں آگیا۔
خانہ جنگی روکنے کے لیے وکرما سنگھے کو جو محنت کرنی پڑ رہی ہے، اس سے کہیں زیادہ ہندوستان کو قابو میں رکھنے کے لیے کرنی پڑے گی، کیوں کہ ہندوستان بہت بڑا ملک ہے، سری لنکا کی آبادی تو صرف سوا دو کروڑ ہے، ہندوستان کی کثیر آبادی کا اس سے موازنہ کیا ہی نہیں جا سکتا، اس لیے ہندوستانی قیادت کو سری لنکا کے حالات سے سبق لے کر اپنا قبلہ کعبہ درست کر لینا چاہیے، ورنہ